اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) نشان حیدر کااعزاز حاصل کرنے والے پاک فوج کے شیر دل جوان کیپٹن کرنل شیر خان شہید کا21واں یوم شہادت آج منایا جائے گا۔ اس سلسلے میں رحیم یارخان سمیت ملک بھر میں شہید کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید 1970ء کو صوابی میں پید اہوئے ان کے والدین نے پاک فوج کی محبت میں ان کا نام ہی کرنل شیر خان رکھ دیا۔
ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کسی فوجی کی بہادری کی تعریف کرے ۔کارگل جنگ کے دوران ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیر خان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ کی کہ بھارتی فوج نے ان کی شجاعت کا اعتراف کیا۔ بی بی سی کے مطابق اس لڑائی کی کمانڈ سنبھالنے والے بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ بتاتے ہیں ‘جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کا قائل ہو چکا تھا۔ باقی سارے پاکستانی فوجی کرتے پاجاموں میں تھے اور وہ تنہا ٹریک سوٹ میں تھا۔ کارگل پر شائع ہونے والی کتاب ‘کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار’ کی مصنفہ کے مطابق پاکستانیوں نے ٹائیگر ہل پر پانچ مقامات پر اپنی چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ پہلے آٹھ سکھ رجمنٹ کو ان پر قبضہ کرنے کا کام دیا گیا لیکن وہ یہ نہیں کر پائے۔بعد میں جب 18 گرینیڈیئرز کو بھی ان کے ساتھ لگایا گیا تو وہ کسی طرح اس پوزیشن پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن کیپٹن شیر خان نے ایک جوابی حملہ کیا۔ پہلی بار ناکام ہونے کے بعد انھوں نے اپنے فوجیوں کو دوبارہ تیار کرکے حملہ کیا’جو یہ جنگ دیکھ رہے تھے وہ سب کہہ رہے تھے کہ یہ ‘خودکش’ حملہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ مشن کامیاب نہیں ہوگا، کیونکہ انڈین فوجیوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ تھی۔
بریگیڈیئر باجوہ کہتے ہیں: ‘کیپٹن شیر خان بہت بہادری سے لڑے۔ آخری میں ہمارا ایک نوجوان کرپال سنگھ جو زخمی پڑا ہوا تھا، اس نے اچانک اٹھ کر 10 گز کے فاصلے سے ایک ‘برسٹ’ مارا اور شیر خان کو گرانے میں کامیاب رہا۔ان کے مطابق پاکستانی حملے کے بعد ‘ہم نے وہاں 30 پاکستانیوں کی لاشوں کو دفنایا۔ لیکن میں نے پورٹرز بھیج کر کیپٹن کرنل شیر خان کی لاش کو نیچے منگوایا اور ہم نے اسے بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں رکھا۔
جب کیپٹن شیر خان کی لاش واپس کی گئی تو ان کی جیب میں بریگیڈیئر باجوہ نے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا: ’12 این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بیجگری سے لڑے اور انھیں ان کا حق دیا جانا چاہیے۔کرنل شیر نے اکتوبر سنہ 1992 میں پاکستانی فوجی اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ انھیں داڑھی صاف کرنے کو کہا گیا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ان کے آخری سیشن میں ان سے دوبارہ کہا گیا کہ آپ کی کارکردگی اچھی رہی ہے اگر آپ داڑھی صاف کر دیتے ہیں تو آپ کو اچھی پوسٹنگ مل سکتی ہے۔لیکن انھوں نے دوبارہ انکار کر دیا۔ اس کے باوجود انھیں بٹالین کوراٹر ماسٹر کی پوزیشن دی گئی۔کیپٹن شیر خان کو پاکستانی فوج کے سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔