پیر‬‮ ، 03 فروری‬‮ 2025 

بجٹ پاکستانی عوام کی زندگیوں، معاشی مستقبل اور روزگار کا ہرگز تحفظ نہیں کرسکتا،موجودہ بجٹ محض ایک چال ہے،پیپلز پارٹی، ن لیگ سمیت متحدہ اپوزیشن جماعتوں نے دھماکہ خیز اعلان کر دیا

datetime 28  جون‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) متحدہ اپوزیشن نے آئندہ مالی سال کے بجٹ 2020-21کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ،آئندہ مالی سال کا بجٹ پاکستانی عوام کی زندگیوں، معاشی مستقبل اور روزگار کا ہرگز تحفظ نہیں کرسکتا،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ تاریخی ظالمانہ اضافے سے واضح ہوگیا سلسلہ وار تقریباً ہر ماہ ایک نیا حقیقی منی بجٹ عوام پر مسلط کیاجائیگا، موجودہ بجٹ محض ایک چال ہے،

آخر پی ٹی آئی حکومت ٹیکس بم کی مزید کتنی بارش کرکے ہم سب کی جان لینا چاہتی ہے؟عمران خان حکومت نے اپنی حکومت کے دونوں برسوں میں تاریخی خسارہ دیا ہے جو پیپلزپارٹی یا (ن) لیگ میں سے کسی ایک کی حکومت کے دور میں بھی کبھی اتنی بلند سطح پر نہیں گیا،موجودہ نااہل قیادت اور کرائے کے ماہرین نے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل گروی رکھ چھوڑا ہے،روپے کی قدر میں 40 فیصد کمی کے باوجود دو برس میں برآمدات میں کمی ہوئی، بیروزگاری دوگنا اور غربت کا سیلاب آچکا ہے، موجودہ حکومت نے شرح سود اور مہنگائی ظالمانہ انتہا پر پہنچا دی،عمران خان حکومت نے عوام کو آکسیجن ’’مافیاز‘‘ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ،کوئی عوام کو بچانے والا نہیں، اٹھارویں ترمیم اور نتیجے میں اختیارات کی منتقلی کے باوجود عمران خان حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل ، قومی اقتصادی کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن جیسے مشاورت کے آئین کے تحت فراہم کردہ ذرائع کو استعمال نہیں کیا،جس پر تشویش ہے ، حکومت کی غفلت کے باعث ٹڈی دل حملے سے پاکستان کے جی ڈی پی کو 600 ارب روپے تک کا نقصان پہنچ سکتا ہے، پاکستان میں 30 لاکھ مربع کلومیٹر فارم لینڈ پہلے ہی متاثر ہوچکی ہے،حکومتی سستی جاری رہی تو مزید زرعی رقبہ اس تباہی کی لپیٹ میں آجائیگا،قومی سطح پر قلت آب کا خطرہ پاکستان کے لئے ایک اور سنگین بحران کی صورت میں موجود ہے،حکومت کے

عوام کو پچاس لاکھ گھردینے کے دعوے اور وعدوںکی کھلی خلاف ورزی اور یوٹرن لیتے ہوئے کسی غریب کو چھت فراہم نہ ہوسکی،خوراک کی قیمتوں میں تاریخی اور دوہندسی اضافے کے باوجود عمران خان حکومت نے تنخواہ اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا،بجٹ سازی کی مشاورت کے دوران تمام پارلیمانی طریقہ ہائے کار کو نظر انداز کیا، اس وقت اتحاد، اتفاق اور شفافیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا کی حالت

بھی انتہائی دگرگوں ہے،موجودہ حکومت نیب کو ہتھیار بنا کر حزب اختلاف کو خاموش کرانا اور دبانا چاہتی ہے، اپوزیشن کے خلاف کارروائیاں سیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے،وطن عزیز اور عوام کو عمران خان حکومت کی نااہلی، غریب دشمنی، منتقم مزاجی اور فسطائی سوچ سے بچانا ہوگا۔اتوار کو متحدہ اپویشن کی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی ،کیو ڈبلیو پی ، جے آئی ، جے یو آئی ،بی این پی مینگل

،پی کے میپ ، این پی حاصل بزنجو اور محسن داوڑ نے مشترکہ و متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں کہاگیاکہ وفاقی بجٹ 2020-21 پاکستان کو درپیش اس وقت ان تمام چیلجز سے نمٹنے میں ہر لحاظ سے ناکام ہے جن میں کورونا عالمی وبا، بدترین افراط زر ومہنگائی، بیروزگاری کا سمندر، تباہ حال صنعت، دم توڑتی زراعت، ٹڈی دل کے مہلک حملے اور عالمی معاشی زلزلے جیسے سنگین مسائل شامل ہیں۔ قرارداد میں کہاگیاکہ عمران خان

حکومت ہرموقع بالخصوص ایک ایسے مرحلے پر پاکستانیوں کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوئی ہے، جب انہیں مدد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی،یہ بجٹ پاکستانی عوام کی زندگیوں، معاشی مستقبل اور روزگار کا تحفظ نہیں کرسکتا،غیرمعمولی حالات سے نمٹنے کیلئے غیرمعمولی حکمت عملی اورجوابی اقدامات کی ضرورت ہے،موجودہ بجٹ ان مشکل ترین حالات کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ قرارداد میں کہاگیاکہ پاکستان کی حزب

اختلاف کے ارکان انتہائی سوچ بچار اور غوروخوض کے بعد درج ذیل وجوہات کی بنا پر بجٹ کو متفقہ طورپر اور یک زبان ہوکر مسترد کرتے ہیں۔قرارداد کے مطابق عمران خان حکومت نے ایسا بجٹ پیش کیا ہے جس کا دامن پاکستان کے عوام کیلئے کسی بھی خوش خبری یا بہتری کی نوید سے سراسر خالی ہے، گزشتہ کی طرح اس برس بھی حکومت کے پیش کردہ معاشی ومالیاتی اعدادوشمار ناقابل بھروسہ ہیں۔ قرار داد میں کہاگیا کہ اپوزیشن کی جانچ

پڑتال اور چھان پھٹک کے نتیجے میں یہ حقیقت بڑی تیزی سے کھل کر سامنے آچکی ہے کہ حکومت نے کس چالاکی،عیاری اور سفاکی سے بجٹ میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کی کوشش کی ہے۔ ’’کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا‘‘مارکہ بجٹ کے بارے میں اس کی منظوری سے پہلے ہی عوام کے خدشات وتحفظات سوفیصددرست ثابت ہورہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ تاریخی ظالمانہ اضافے سے واضح ہوگیا ہے کہ سلسلہ وار

تقریبا ہر ماہ ایک نیا حقیقی منی بجٹ عوام پر مسلط کیاجائے گا۔ آخر پی ٹی آئی حکومت ٹیکس بم کی مزید کتنی بارش کرکے ہم سب کی جان لینا چاہتی ہے؟قرار دا د میں کہاگیاکہ پاکستان سنگین ترین مالیاتی بحران سے گزررہا ہے،نااہل حکومت صرف دو سال کی مختصر مدت میں اس مقدار سے بھی کہیں زیادہ قرض لے چکی ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی یا پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پانچ سال کی مدت میں لیا تھا۔ قرارداد میں کہاگیا کہ عمران خان

حکومت نے اپنی حکومت کے دونوں برسوں میں تاریخی خسارہ دیا ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی یا پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سے کسی ایک کی حکومت کے دور میں بھی کبھی اتنی بلند سطح پر نہیں گیا،یہ تاریخی خسارے اور قرض، مجموعی قومی شرح ترقی (جی ڈی پی) میں ڈالر اور روپے کے لحاظ سے ریکارڈ کمی نے حالات کی سنگینی بڑھا دی ہے اور قوم کے بچوں کے مستقبل کو تباہی سے دوچار کردیا ہے،بے سمت موجودہ حکومت نے

معیشت جس طرح تباہ کی ہے ، دراصل موجودہ نااہل قیادت اور اس کے کرائے کے ماہرین نے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل گروی رکھ چھوڑا ہے۔ قرار داد میں کہاگیا کہ گزشتہ دو سال کے دوران عمران خان حکومت نے جی ڈی پی کی شرح ترقی پانچ اعشاریہ آٹھ (5.8) فیصد سے منفی صفر اعشاریہ چار (0.4) فیصد پر پہنچادی ہے،ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس گزشتہ برس سے بھی کم جمع ہوا۔ قرارداد میں کہاگیاکہ عمران خان حکومت نے

دو سال میں یہ کارنامہ دو بار انجام دیا ہے، روپے کی قدر میں 40 فیصد کمی کے باوجود دو برس میں برآمدات میں کمی ہوئی، بیروزگاری دوگنا اور غربت کا سیلاب آچکا ہے۔ موجودہ حکومت نے شرح سود اور مہنگائی ظالمانہ انتہا پر پہنچا دی۔شرح سود میں یہ اضافہ کرکے بیرون ملک نامعلوم سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچایاگیا جنہوں نے پاکستانیوں سے اربوں روپے سمیٹ لئے۔ یہ سب ہمیں یاد رہے گا۔ قرارداد میں کہاگیاکہ گزشتہ برس بجٹ کے دوران

عمران خان حکومت نے قوم سے یہ جھوٹ بولا تھا کہ بجٹ خسارہ 7.1 فیصد ہوا حالانکہ نظرثانی پر حقیقت میں یہ 9.1 فیصد نکلا، اس سال دعویٰ کیاگیا ہے کہ خسارہ 9.1 فیصد ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ اس سے کہیں زیادہ ہے،عمران خان حکومت 27 فیصد زیادہ ٹیکس یا مزید ایک ہزارارب روپے جمع کرنے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب عمران خان حکومت منی بجٹس پیش کرے، ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ حکومت یہ کرنے

جارہی ہے لہذا موجودہ بجٹ محض ایک چال ہے۔قرارداد میں کہاگیا کہ کورونا وبا کے باعث پاکستان سنگین معاشی اور سماجی بحران سے دوچار ہے، ان خطرات کے مقابلے اور سفید پوش، غریب،نادار ومستحق افراد کو مدد فراہم کرنے، ان کی زندگی اور روزگار بچانے کے بجائے عمران خان حکومت بجٹ کو بھی اپنی تباہ کن اور عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کی بے رحم ہلاکت خیز سیاست کی بھینٹ چڑھا رہی ہے،حیرت انگیز طورپر عمران خان

حکومت کے بجٹ میں اس حقیقت کو قطعی فراموش کیاگیا کہ دنیا ایک غیرمعمولی ہنگامی صورتحال سے گزر رہی ہے،عمران خان حکومت نے کورونا عالمی وباء کی حقیقت مکمل نظرانداز کی ہے، کورونا وباء سے نمٹنے کے تقاضوں کے مطابق بجٹ سازی کے بجائے عمران خان حکومت قوم کو اپنی بے ایمانی اوربے اخلاصی کی مشق ستم کا نشانہ بنارہی ہے۔قرار داد میں کہاگیا کہ اس بحران اور اس سے نمٹنے کے تقاضوں کے مطابق بجٹ سازی

کے بجائے عمران خان حکومت قوم کو اپنی بے ایمانی اوربے اخلاصی کی مشق ستم کا نشانہ بنارہی ہے۔ دل شکن حقیقت یہ ہے کہ بجٹ میں کہیں عوام کے لئے کوئی احساس دکھائی نہیں دیتا جو اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ اس وقت ترقیاتی اخراجات میں اضافے کی ضرورت تھی تاکہ عوام کو روزگار ملتا۔ حکومت نے اْلٹا ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کردی ہے۔ موجودہ حکومت نے سی پیک کو بتدریج موت کے گھاٹ

اتارنے کے اپنے ایجنڈے پر عمل جاری رکھتے ہوئے بجٹ میں نہایت قلیل رقم رکھی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ بجٹ بہت مختلف ترجیحات رکھنے والے ذہن نے بنایا ہے۔ قرارداد میں کہاگیاکہ بجٹ میں ڈاکٹرز اورطبی عملے کے لئے کوئی اضافی تحفظ فراہم نہیں کیاگیا جو اس وقت اپنی جان دائو پر لگا کر انسانوں کی زندگیاں بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں تاکہ ہم اپنے اہلخانہ کے ساتھ محفوظ زندگی گزار سکیں۔ بیان میں کہاگیاکہ بجٹ میں نئے ہسپتالوں کی

تعمیر، وینٹی لیٹرز یا آکسیجن سے متعلق کوئی اضافی رقم نہیں رکھی گئی،اس کے برعکس موجودہ حکومت کے دور کی روایت کے عین مطابق تمام دیگر چیزوں کی طرح آکسیجن کی بھی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ قرارداد میں کہاگیاکہ عمران خان حکومت نے عوام کو آکسیجن ’’مافیاز‘‘ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے اور کوئی عوام کو بچانے والا نہیں، عمران خان حکومت کے پاس صحت اور معیشت کی بحالی کے لئے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں۔

قرارداد میں کہاگیاکہ حکومت کے پاس صرف اخباری بیانات ہیں، کورونا کے نتیجے میں درپیش چیلنج اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانات سے فائدہ اٹھانے کی جھلک ’’بجٹ‘‘ میں دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس تک ملک میں 1279 ہسپتال موجود تھے۔ 2028-2020 میں کوئی نیا ہسپتال اس فہرست میں شامل نہیں ہوا۔ قرارداد کے مطابق یہ امر باعث تشویش ہے کہ اٹھارویں ترمیم اور اس کے

نتیجے میں اختیارات کی منتقلی کے باوجود عمران خان حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی)، قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) اور قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) جیسے مشاورت کے آئین کے تحت فراہم کردہ ذرائع کو استعمال نہیں کیا۔ اپنے نوٹیفیکیشن کے مطابق تشکیل کردہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) مکمل طورپر غیرقانونی ہے۔صحت عامہ کے ڈھانچے کی تیاری کے لئے عالمی ادارہ صحت نے جو گزارشات کی تھیں،

انہیں بھی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، صحت کیلئے جی ڈی پی میں وسائل بڑھانے کے بجائے عمران خان حکومت نے غیرقانونی اقدام اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی صوبوں کے لئے مدد پر کٹوتی کی چھری چلائی،اس سال صوبوں کیلئے مختص کردہ رقم 20 فیصد یا 500 ارب روپے ہے جو گزشتہ سال کے تخمینے سے بھی کم ہے، بجٹ میں تمام صوبوں کے لئے صحت کا پیکج رکھا جانا چاہیے تھا۔ قرار داد میں کہاگیاکہ

ٹِڈّی دَل سے متعلق اقوام متحدہ کے خوراک وزراعت کے ادارے اوراپوزیشن کے باربار خبردار کرنے کے باوجود کہ اس حملے سے پاکستان کے جی ڈی پی کو 600 ارب روپے تک کا نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن وفاقی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اس عذاب سے نمٹنے کے لئے صرف 10 ارب روپے مختص کئے گئے،1 لاکھ40 ہزار ایکڑ فصلیں پہلے ہی ٹڈی دل کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہیں اور اب ایشیاء اور افریقہ کے دیگر حصوں

کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ کیڑے مار سپرے کرنے والے جہازوں، ادویات اور ساز وسامان کی فراہمی وترسیل سے متعلق اپیلوں اور مطالبات کو پس پشت ڈال کر بجٹ میں مجرمانہ لاپرواہی برتی گئی ہے۔ قرارداد میں کہاگیا کہ پاکستان میں 30 لاکھ مربع کلومیٹر فارم لینڈ پہلے ہی متاثر ہوچکی ہے،حکومتی سستی جاری رہی تو مزید زرعی رقبہ اس تباہی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ 60 فیصد پاکستان بھوک وافلاس کے خطرے کے کنارے پر کھڑا ہے۔دنیا کے

اس عظیم ترین مسئلے سے وفاقی حکومت کی عدم توجہی اور لاتعلقی پاکستان میں بسنے والوں کی زندگیوں پر سنگین اثرات مرتب کرے گی، اس سے روزگار کے علاوہ پاکستان کی برآمدات کس بری طرح متاثر ہوں گی، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ کم از کم 20جہاز اور اس کے لئے مناسب وسائل فراہم نہ کئے گئے تو ایف اے او کے مطابق پاکستان کی معیشت کو 2000 ارب روپے تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔ دنیا خبردار کررہی ہے کہ 25

سال میںٹڈی دَل کا بدترین حملہ ہوا ہے۔ عمران خان حکومت کو دنیا کے خبردار کرنے کی کوئی پرواہ نہیں، ، اپوزیشن کی گزارشات کو نظرانداز کررہی ہے، حتی کہ ٹڈی دَل کے خلاف اپنی ہی تیار کردہ قومی حکمت عملی پر بھی عمل درآمد نہیں کررہی۔ قرار داد میں کہاگیاکہ قومی سطح پر قلت آب کا خطرہ پاکستان کے لئے ایک اور سنگین بحران کی صورت میں موجود ہے۔ زیرزمین پانی کے ذخیرے خشک ہورہے ہیں اور سمندری پانی سے زمینوں کو

خطرات لاحق ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تغیر نے مسائل کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ 2025 تک پاکستان میں قلت آب کی اقوام متحدہ کی وارننگ کے باوجود موجودہ حکومت نے آبی ذخائر اور پانی کو محفوظ بنانے کے لئے وسائل بڑھانے کے بجائے ان میں مزید کمی کردی ہے۔ قرارداد میں کہاگیکہ عمران خان حکومت چھپا رہی ہے کہ اس نے عوام پر حالیہ پٹرول بم ’’پٹرولیم لیوی‘‘ کی مد میں پھینکا ہے تاکہ صوبوں کو اس مد میں جمع ہونے والے

وسائل سے حصہ نہ دینا پڑے جس کا آئین نے حکم دے رکھا ہے،اس اقدام سے نہ صرف عوام اور صوبوں پر مزید وزن لاد دیاگیا ہے بلکہ یہ اقدام غیرقانونی بھی ہے۔ قرار داد میں کہاگیاکہ عمران خان حکومت نے کنسٹرکشن سیکٹر کے ذریعے منی لانڈرنگ کی اجازت دے کر اپنے حواریوں کے پیسے کو تحفظ دیا جنہوں نے کالے دھن کو سفید بنانے اور ٹیکس رعایتوں کے ذریعے پہلے ہی بے تحاشہ دولت سمیٹ لی ہے،عمران خان حکومت کے عوام کو

پچاس لاکھ گھردینے کے دعوے اور وعدوںکی کھلی خلاف ورزی اور اس پر یوٹرن لیتے ہوئے کسی غریب کو چھت فراہم نہ ہوسکی۔ قرار داد میں کہاگیا کہ مالی تکالیف سے دوچار غریبوں کی مدد کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ (بی آئی ایس پی) میں تین گنا اضافہ کرنے کے بجائے عمران خان حکومت نے سماجی تحفظ کے پروگرام میں 34 ارب کی کٹوتی کردی،غریب عوام کو دیاجانے والا ریلیف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی واحد گرانٹ

ہے جو سال کے دوران رکھے جانے والے عمومی خرچ کے سوا اورکچھ بھی نہیں۔ قرار داد میں کہاگیا کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں پہلی بار مہنگائی بالخصوص خوراک کی قیمتوں میں تاریخی اور دوہندسی اضافے کے باوجود عمران خان حکومت نے تنخواہ اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا ماضی کی تمام حکومتوں نے کسی نہ کسی حد تک اس ضمن میں لازما ریلیف فراہم کیا،جب عوام صحت وروزگار کے سب سے خوفناک دور سے گزر رہے ہیں ، ان کی

سفید پوشی داو پر ہے، عالمی وبا اور دیگر مسائل میں گھرے عوام اور بزرگ شہریوں کو سنگ دلی اور سفاکی سے بھلا دیاگیا۔قرار داد میں کہاگیاکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کم ازکم اجرت کو مہنگائی کے تناسب سے متعین نہیں کیاگیا جس سے غریب ترین طبقات، مزدور، دیہاڑی دار اور محنت کشوں پر اضافی وزن ڈال دیاگیا ہے۔قرار داد میں کہاگیاکہ عمران خان حکومت کورونا عالمی وبا کے آنے سے پہلے کی اپنی ’’بے مثال‘‘ کارکردگی کا خوب

ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے جبکہ اس کے اپنے پیش کردہ اعدادوشمار ان بلند وبانگ دعوئوں کے برعکس تصویر دکھا رہے ہیں۔ شرح سود یا پالیسی ریٹ میں انتہائی زیادہ اضافہ کی حکمت عملی، روپے کی قدر میں اچانک اور بڑی مقدار میں کمی کے علاوہ نیب کے ذریعے سرمایہ کاروں کو ڈرانے دھمکانے اور انتقامی کارروائیوں کا نتیجہ معیشت کے جمود کی صورت برآمد ہوا اور گرتی معیشت اور اس کے جمود نے ملک کو تباہی ولاچاری کاشکار

کردیا،ڈیڑھ سال کے عرصے میں خوراک کی قیمتوں میں ایک سے 25 فیصد تک کا ہوشربا اضافہ ہوا۔ عمران خان حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں اور لاکھوں عوام غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے جاچکے ہیں، یہ سب کچھ اس وقت تک ہوچکا تھا جب ملک میں کسی نے کورونا کا نام ونشان بھی نہیں سنا تھا۔ قرار دا د میں کہاگیاکہ عمران خان حکومت نے بجٹ سازی کی مشاورت کے دوران تمام پارلیمانی

طریقہ ہائے کار کو نظر انداز کیا، کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر پاکستان کو جو امدادی رقم دی گئی ہے، اس کا کوئی اتہ پتہ ، کوئی حساب کتاب دستیاب نہیں،تمام اخراجات کی پارلیمان سے منظوری لینے کے باربارکے تقاضوں کے باوجود بیرون ملک سے آنے والی امداد سے متعلق شفافیت موجود نہیں اور نہ نگرانی کا کوئی نظام ہی دستیاب ہے،کورونا پر پارلیمانی کمیٹی کا آخری ہنگامی اجلاس 27 اپریل 2020 کو ہوا تھا،جسے

منعقد ہوئے اب دو ماہ ہوچکے ہیں، بحران کے اس دور میں پارلیمانی کمیٹیوں کا کردار نظرانداز کردیاگیا ہے حالانکہ اس وقت اتحاد، اتفاق اور شفافیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ قرارداد میں کہاگیاکہ پی ٹی آئی حکومت میں جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا کی حالت بھی انتہائی دگرگوں ہے،باربارکی یاد دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی حکومت نے صحافی برادری کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا حالانکہ یہ شعبہ کورونا وبا کے آنے سے سب سے بری

طرح متاثر ہونے والے شعبہ جات میں سے ایک ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے پراپگنڈے اور جھوٹ کے فروغ کے لئے اشتہارات کو ہتھیاربنایا۔ اس حکومتی حکمت عملی کے نتیجے میں یہ شعبہ پہلے ہی شدید مالی بحران سے دوچار تھا۔ مالی بحران کے باعث بڑے پیمانے پر میڈیا کے محنت کش اور ملازمین بیروزگار ہوچکے تھے اورتنخواہوں میں کٹوتیوں کے عذاب کا سامنا کررہے تھے، پی ٹی آئی نیب ، دھمکیوں اور دھونس کے دیگر طریقوں

کو استعمال کرکے پاکستان میں میڈیا کا گلا گھونٹتی ہے اور پھر سوشل میڈیا پر ہجوم کے ذریعے قتل کرنے کے انداز کواپناتے ہوئے ریاست کے چوتھے ستون کو بدنام کرتی ہے، سوشل میڈیا کو استعمال کرکے لوگوں کو سیاسی مخالفین پر تشدد کے لئے اکسایاجاتا ہے، جنگ گروپ کے میرشکیل الرحمن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت کو پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے کی کھلی فضا سے کتنی چڑ اور

نفرت ہے۔ قرار داد میں کہاگیاکہ منتقم مزاج موجودہ حکومت نیب کو ہتھیار بنا کر حزب اختلاف کو خاموش کرانا اور دبانا چاہتی ہے، سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور پنجاب اسمبلی میں موجودہ قائد حزب اختلاف حمزہ شہبازشریف اس حقیقت کی کھلی مثال ہیں،آج تک ان پر کوئی الزام نہیں لگ سکا، یہ سیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے۔ قرارداد میں کہاگیا کہ اس سے قبل کہ ملک ان نااہلیوں، نالائقیوں اور حماقتوں کے ملبے تک ڈوب جائے، وطن

عزیز اور عوام کو عمران خان حکومت کی نااہلی، غریب دشمنی، منتقم مزاجی اور فسطائی سوچ سے بچانا ہوگا۔ قرار داد میں کہاگیاکہ وفاقی بجٹ 2020-21 کورونا عالمی وبا، بدترین افراط زر ومہنگائی، بیروزگاری کے سمندر، تباہ حال صنعت، دم توڑتی زراعت، ٹڈی دل کے مہلک حملے اور عالمی معاشی جھٹکوں سمیت پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ہر لحاظ سے ناکام ہے ،عمران خان حکومت ہرموقع بالخصوص ایک ایسے

مرحلے پر پاکستانیوں کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوئی ہے، جب انہیں مدد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ وفاقی بجٹ 2020-21 پاکستانی عوام کی زندگیوں، معاشی مستقبل اور روزگار کا ہرگز تحفظ نہیں کرسکتا، مشترکہ اپوزیشن متحد ، متفق اور یک زبان ہوکرپوری قوت وشدت سے اسے مکمل طورپر مسترد کرتی ہے۔ بجٹ کے خلاف حزب اختلاف کے مشترکہ اعلامیے پر پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن)بلوچستان نیشنل پارٹی ، قومی وطن پارٹی، جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی (بزنجو) اور پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی نے دستخط کئے ۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



تیسرے درویش کا قصہ


تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…