اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’فواد چودھری سچ کہہ رہے ہیں‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔آپ جس دن موجودہ حکومت کا تجزیہ کریں گے آپ کو وزیراعظم عمران خان بھی ٹیم کے ہاتھوں مار کھاتے نظر آئیں گے‘ ٹیم کے معاملے میں عمران خان کا بنیادی فلسفہ ہی غلط تھا‘ یہ ماضی میں بار بار کہتے تھے اگر لیڈر اچھا ہو تو نیچے ٹیم خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے‘ یہ فرماتے تھے
مچھلی ہمیشہ سر سے گلنا شروع ہوتی ہے لیکن وقت نے ان کا یہ فلسفہ غلط ثابت کر دیا۔تجربے سے ثابت ہوا ٹیم لیڈر خواہ کتنا ہی نالائق ہو یہ اگر ٹیم اچھی بنا لے تو یہ کام یاب ہو جاتا ہے اور ٹیم ہمیشہ تجربہ کار‘ ذہین اور گہرے لوگوں کی بنائی جاتی ہے‘اگر لیڈر بھی ناتجربہ کار ہو اور یہ اپنے گرد ٹیم بھی نا تجربہ کار لوگوں کی جمع کر لے تو پھرکیا نتیجہ نکلے گا؟ وہی نکلے گا جو اس وقت نکل رہا ہے اور فواد چودھری یہی رونا رو رہے ہیں۔آپ فواد چودھری کے انٹرویو کے بعد صورت حال ملاحظہ کیجیے‘ وزراءآف دی ریکارڈ اس انٹرویو کو کلمہ جہاد کہہ رہے ہیں اور کیمروں کے سامنے فواد چودھری کے خیالات کی مذمت کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے فواد چودھری کی کون سی بات غلط ہے؟ عمران خان کے بعد پارٹی میں تین سینئر ترین لیڈر تھے‘ شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر اور جہانگیر ترین‘ کیا یہ سچ نہیں عمران خان ان تینوں کو بھی اکٹھا نہیں چلا سکے۔یہ تینوں حکومت بننے سے پہلے ایک دوسرے سے لڑنا شروع ہوئے تھے اور یہ آج تک لڑ رہے ہیں‘ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی لڑائی جلسوں اور چینلز تک پہنچ گئی تھی اور یہ تماشا پوری دنیا نے دیکھا تھا‘ کیا یہ سچ نہیں؟ کیا یہ بھی سچ نہیں عمران خان کو جہانگیر ترین نے اسد عمر سے جان چھڑانے کا مشورہ دیا تھا اور جب مقتدر حلقوں نے اسد عمر پر اعتراض کیا تو عمران خان نے جہانگیر ترین کے کہنے پر اسد عمر کو سائیڈ لائین کر دیا تھا۔جہانگیر ترین پچھلے دو ماہ سے یہ بھی کہہ رہے ہیں اسد عمر نے
پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شہزاد اکبر کے ذریعے مجھے فارغ کرایا‘ آپ تھوڑی سی تحقیق کر لیں آپ بہت جلد اس شخص تک بھی پہنچ جائیں گے جس نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بتایا تھا جہانگیر ترین بھی مولانا فضل الرحمن کو دھرنے پر قائل کرنے والوں میں شامل تھے اور کیا پارٹی کو یہ معلوم نہیں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر وزیراعظم بننے کے لیے باقاعدہ لابنگ کر رہے ہیں اور ان دونوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت سے بھی رابطہ کیا تھا۔