اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’چوتھی ملاقات کی مہلت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔انہوں نے مجھے بھی مشورہ دیا ”تم کچھ بھی کرو لیکن لکھنا مت چھوڑنا‘ یہ تمہارے کام آئے گا“ اور طارق عزیز صاحب کے ساتھ میری تیسری اور آخری ملاقات پچھلے سال لاہور میں ہوئی تھی‘ یہ ہوٹل میں کھانے پر مدعو تھے‘ میں بھی وہاں موجود تھا‘ یہ اٹھ کر میرے پاس آ گئے
اور کھانے کے دوران مسلسل گفتگو کرتے رہے۔میں یہ جان کر حیران ہوا یہ عمران خان کے بہت مداح تھے‘ ان کا خیال تھا خان ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے اور یہ کچھ نہ کچھ کرے گا‘ وہ بار بار کہہ رہے تھے‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا کام یاب ترین وزیراعظم ثابت ہو گا اور میں ان سے مسلسل اتفاق کر رہا تھا‘ یہ اتفاق ان کو کھٹک گیا اور وہ مجھے غور سے دیکھ کر بولے ”تم مجھے الو بنا رہے ہو“ ۔میں نے ہنس کر جواب دیا ”سر میری کیا مجال ہے بس آپ دو سال انتظار کر لیں‘ پورا ملک مل کر آپ کو کہہ رہا ہو گا“ وہ ہنسے اور ان کے حلق میں لقمہ پھنس گیا‘ میں نے انہیں پانی پیش کر دیا‘ وہ اس کے بعد موضوع تبدیل کرتے رہے‘ بات کتابوں سے ہوتی ہوئی سفر تک پہنچی اور وہ آخر میں بولے ”تمہیں سب سے زیادہ کون سا ملک پسند ہے“۔میں نے ہنس کر جواب دیا ”نیا پاکستان“ انہوں نے میرے پیٹ میں کہنی ماری اور سرگوشی کی ”بکواس نہ کرو“ میں نے عرض کیا ”سر جارجیا اچھا اور دل چسپ ملک ہے“ میں اس کے بعد انہیں تبلیسی کے بارے میں بتاتا رہا اور وہ بچوں جیسی حیرت سے مجھے دیکھتے اور سنتے رہے‘ پھر اس کے بعد بولے”میں سفر سے خوف زدہ ہوں۔میں نے زندگی میں بہت کم سفر کیے ہیں‘ مجھے اسلام آباد بھی پردیس محسوس ہوتا ہے لیکن میں تمہارے ساتھ جارجیا ضرور جاؤں گا اور یوں ہماری تیسری ملاقات بھی ختم ہو گئی۔میں ان سے چوتھی مرتبہ ملنا چاہتا تھا‘
وہ حقیقتاً صاحب علم اور شان دار گہرے انسان تھے لیکن وقت ایک ایسی ایکسپریس ٹرین ہے جو کسی کی خواہشوں کی غلام نہیں ہوتی۔یہ اپنی سپیڈ سے چلتی ہے اور مسافر ا س سے اپنی اپنی باری اور اپنے اپنے مقام پر اترتے چلے جاتے ہیں‘ طارق عزیز صاحب کا سفر بھی 17 جون کو اچانک ختم ہو گیا‘ یہ بھی ٹرین سے اتر گئے لیکن یہ جاتے جاتے ہمارے جیسے سکرین پر ٹمٹماتے چراغوں کو یہ پیغام دے گئے
دنیا میں شہرت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز نہیں ہوتی۔یہ جب جاتی ہے تو یہ طارق عزیز جیسے لوگوں کی طرف بھی مڑ کر نہیں دیکھتی لہٰذا جتنی مہلت مل جائے شکر ادا کریں اور لوگوں کے لیے خیر اور محبت کاذریعہ بنیں‘ نیکی اور محبت دو ایسے دیے ہیں جو مرنے کے بعد بھی قبروں کو روشن رکھتے ہیں ورنہ عارضی دنیا کی ہر نعمت وقت کے ساتھ گل ہو جاتی ہے‘ رخصت ہو جاتی ہے‘ زندگی چوتھی ملاقات کا وقت بھی نہیں دیتی‘ ہم صرف سوچتے رہ جاتے ہیں۔