بدھ‬‮ ، 30 جولائی‬‮ 2025 

ملکی تاریخ میں آج تک کسی جج کی فوتگی کے بعد اس کی اہلیہ نے پنشن لینے سے انکار نہیں کیا ،نواز شریف نے بھی کہا تھا مجھ سے خود کفیل اہل خانہ بارے سوال نہ کیا جائے، جائیدادیں اہلیہ کے نام ہیں تو سوال بھی اہلیہ سے بنتا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں دلائل

datetime 11  جون‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام ا ٓباد(آن لائن) صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس فائز عیسی کی درخواست کی سماعت کے موقع پر وفاقی کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ایسسٹ ڈیکلیریشن ایکٹ 2019میںاہلیہ کو ہر دو صورت میںزیر کفالت قرار دیا گیاہے ،ایمنسٹی اسکیم بھی ججز کی اہلیہ اور زیر کفالت بچوں کیلئے نہیں،کیونکہ پبلک آفس ہولڈرز اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ملکی تاریخ میں آج تک کسی جج کی فوتگی کے بعد اس کی اہلیہ نے پنشن لینے سے انکار نہیں کیا ۔

اگر پنشن لیتے وقت کوئی اہلیہ زیر کفالت یا خود کفیل نہیں ہوتی تو اس کیس میں کیونکر اس میزانیہ کی آڑ لی جا رہی ہے ۔پانامہ کیس میں نواز شریف نے بھی کہا تھا کہ مجھ سے خودکفیل اہل خانہ بارے سوال نہ کیا جائے ، سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اگر جائیدادیں اہلیہ کے نام ہیں تو سوال بھی اہلیہ سے بنتا ہے تو یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈسپلنری ایکشن میں بیگم سے نہیں بلکہ پبلک آفس ہولڈر سے سوال کیا جاتا ہے ۔بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدعن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرے،درخواست گزار کا موقف ہے کہ انکی اہلیہ اور بچے انکے زیر کفالت نہیں،جج کیخلاف کارروائی صرف اسی صورت ہوگی جب جج کا مس کنڈکٹ ہو، معاملہ ٹیکس کا یا کسی اور جرم کا نہیں ہے،مس کنڈکٹ کی آرٹیکل 209 میں تعریف نہیں کی گئی،ہندوستان میں ثابت شدہ مس کنڈکٹ لکھا گیا ہے، آئین کے آرٹیکل 209 میں مس کنڈکٹ کی تعریف نہ کرنا دانستہ ہے، 2009 میں مس کنڈکٹ کی بات کی تو دیگر انتظامی قوانین سے اصول لیے جائیں گے ،آئین میں زیر کفالت اہلیہ اور خود کفیل اہلیہ کی تعریف موجود نہیں،ایمنسٹی سکیم کے تحت جج اور انکی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر ہیں ،جج کی اہلیہ بھی ایمنسٹی نہیں لے سکتیں ، بچوں کے لیے تو پھر بھی زیر کفالت یا خود کفیل کا ایشو ہے ، اہلیہ کے لیے ایسا کچھ نہیں،جج سے سوال کرنے کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے ،سپریم جوڈیشل کونسل نے اسی حق کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا،

پانامہ کیس میں نواز شریف صاحب نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائیداد کا مجھ سے مت پوچھیں،اس کیس میں بھی تینوں جائیدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا، ڈسیپلنری ایکشن میں بیگم سے نہیں پبلک آفس ہولڈر سے پوچھا جاتا ہے، پاکستان کے تمام ججز پولیٹیکل ایکسپوزڈ پرسنز ہوتے ہیں،پولیٹکل ایکسپوزڈ پرسنز میں ملٹری اور جوڈیشل افسر شامل ہیں، آئین کے آرٹیکل 63(1) این اور او میں بھی ایک کلاس بنائی گئی ہے،آئین بنانے والوں نے اس میں بھی خود مختار یا زیر کفالت کا ذکر نہیں کیا گیا،قانون میں جج کی بیوہ پینشن لے سکتی ہے،

لیکن قانون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جج کی بیوہ خود مختار ہے یا نہیں،اگر بیوہ مالدار ہے اور کوئی کاروبار کرتی ہے تب بھی وہ پینشن لیتی ہے،اگر کسی جج کی بیوہ آگے شادی کر لیتی ہے تو پھر معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے، ایک 22 گریڈ کے سیکرٹری کے تمام قوانین ججز پر بھی لاگو ہوتے ہیں، آرٹیکل 19 کے مطابق جہاں جہاں فیڈرل سیکریٹری موجود ہے وہاں اس کے رولز ججز پر لاگو ہو سکتے ہیں، ججز پینشن قانون میں بھی جج کی بیوہ خودمختار ہے یا نہیں اس کو پینشن دینے کا کہا گیا ہے،اس میں بھی خود مختار یا زیر کفالت کی کوئی تقسیم نہیں کی گئی،

پاکستان میں تین ایسے قوانین ہیں جسکے تحت ججز اور انکی بیگمات کو اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں،اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم سوال کر سکتا ہے، اگر ہم آج یہ مان لیتے ہیں کہ جج سے انکی اہلیہ یا زیر کفالت بچوں کے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے تو تباہی ہو گی،درخواست گزار جج بیرون ملک اثاثے تسلیم شدہ ہیں، معزز جج کے اہل خانہ کے بیرون ملک اثاثوں کی کوئی موڈگیج نہیں ہے۔ معاملہ کی سماعت جسٹص عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بنچ نے کی ۔دوران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ

فروغ نسیم اپنی مرضی کے مطابق بحث کریں،آپ کے اکثریت سوالات غیر متعلقہ ہیں، اے آر یو سے متعلق 2 تین مثالیں اور بیان کر دیں،یہ بھی بتا دیں ججز کے ضابطہ اخلاق کی قانونی قدعن ہے کہ نہیں،عدالت آپ کو تفصیل سے سنے گی،آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیگر شہریوں کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل ہے،لیکن ججز اور اہل خانہ کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل نہیں، آپکی اس بات کا اس کیس سے کیا تعلق، آپ نے میاں بیوی کے درمیان زیر کفالت سے متعلق سوال نہ کرنے بارے کسی عدالتی فیصلے کا حوالہ نہیں دیا، ہمیں وہ عدالتی فیصلہ دکھائیں جس میں میاں بیوی کے درمیان زیر کفالت ہونے کے نقطے کو ختم کیا گیا،ریفرنس میں بدنیتی کا سوال اٹھایا گیا ہے، شواہد کیسے اکھٹے کیے گئے یہ سوال بھی اہم ہے،

غیر قانونی طریقے سے شواہد اکھٹے کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے،اعلیٰ عدلیہ کے جج کی جاسوسی کرنے کا سوال بھی موجود ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین ہی انتظامی قوانین کو اختیار دیتا ہے ،آئین دیگر تمام قوانین کا ماخذ ہے ،مس کنڈکٹ کی تعریف دیگر قوانین کے بجائے بہتر ہو گا کہ آئین کے تحت ہی دیکھی جائے ۔جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا انکی اہلیہ سے ان جائیدادوں کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا ،حقیقت میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہ کر کے جج نے قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا ،درخواست گزار پر انکم ٹیکس قانون کی شق 116 کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا،ہمیں اس بارے میں جواب دیں، ہم نے کافی سوالات پوچھے ہیں، یہ بات ذہن نشین کر لیں سپریم کورٹ نے ججز کی جاسوسی پر ایک منتخب حکومت کو تحلیل کردیا تھا۔بیرسٹر فروغ نسیم نے اس موقع پر عدالت کو باور کرایا کہ اگر یہی رفتار رہی تو وہ دو دن میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے ۔عدالت نے معد ازاں معاملہ کی سماعت ایک دن کیلئے ملتوی کر دی ہے ۔

موضوعات:



کالم



ماں کی محبت کے 4800 سال


آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…