اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) روزنامہ جنگ میں چھپنے والے کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ مجھے کرونا ہو گیا ہے۔ جب سے کرونا کی وبا پھیلی تھی میں نے بہت احتیاط کی تھی تھی۔ باہر نکلنے سے پہلے دستانے اور ماسک پہنتا تھا۔ سماجی دوری کا خیال رکھا۔ تقریبات میں جانا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔
معمول کی ادویات کے علاوہ کلونجی بھی پانی کے ساتھ مسلسل لے رہا تھا۔ ساتھ ہی لہسن کی تری دہی میں ڈال کر کھا رہا تھا۔سہیل وڑائچ کے مطابق انکے اہلخانہ انہیں لونگ اور ادرک والا قہوہ زبردستی پلا رہے تھے۔ وٹامن سی کی موٹی اور پیلی سی گولی بھی پانی میں ملا کر دن میں دو بار پی رہا تھا۔ جونہی کرونا ٹیسٹ مثبت آیا میں نے آنکھیں بند کرکے سوچا سامان سو برس کا تھا خبر پل کی بھی نہیں۔ کیا کیا ارادے تھے۔ ہزاروں خواہشیں باقی ہیں۔ پھر خیال آیا دامن میں ہے کیا؟سہیل وڑائچ کے مطابق انہیں دل کا عارضہ بھی لاحق ہے، شوگر کے بھی وہ مریض ہیں۔ شاعرانہ طبعیت ہونے کی وجہ سے وہ کھیل کود اور ورزش سے گریز کرتے ہیں ،سہیل وڑائچ نے مزید بتایا کہ انہیں پانچ دن پہل کرونا کی شکایت ہوئی۔ ہلکا سا زکام تھا، یہ معمول کی بات ہے صبح صبح مجھے زکام ہوتا ہے، سورج اوپر چڑھتا ہے تو غائب ہو جاتا ہے مگر اس دن سے آج تک زکام، فلو اور پھر لگاتار چھینکیں۔ ساتھ ہی ساتھ گلے اور سر میں درد بھی محسوس ہونے لگا۔ پہلے تو مجھے یوں لگا کہ یہ سب وہم ہے، یہ بھی محسوس ہوا کہ کرونا جیسی علامات ضرور ہوں مگر کرونا مجھے کہاں ہوگا، میں تو بہت احتیاط کر رہا ہوں مگر اسی شام ٹیسٹ کروایا تو پتا چلا کہ میں کرونا کا شکار ہوچکا ہوں۔سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ پانچ روز سے قرنطینہ میں ہوں، روز اپنا حساب کرتا ہوں، اپنے گناہوں کے ڈھیر کو دیکھتا ہوں تو خوفزدہ ہو جاتا ہوں اور اگر حضرت سلطان باہو کی طرح خدا کی عنایات کو دیکھتا ہوں جو بےپایاں اور بےشمار ہیں تو دل مطمئن ہو جاتا ہے۔