اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ اللہ تیرا رحم ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔فلائیٹ پی کے 8303 کے دومسافر معجزانہ طور پر بچ گئے‘ ان میں بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود بھی تھے‘ یہ ملک کے نام ور اداکار منور سعید کے صاحب زادے ہیں‘ ظفر مسعود کے بقول حادثے سے پہلے طیارے میں شور ہوگیا‘ لوگوں نے اونچی اونچی آواز میں کلمہ پڑھنا شروع کر دیا‘
لوگ اللہ تعالیٰ کو بھی پکار رہے تھے اور گڑگڑا کر دعائیں بھی کر رہے تھے لیکن مجھ پر الٹا اثر ہوا۔میں سکتے میں چلا گیا‘ مجھے اس وقت کوئی کلمہ‘ کوئی دعا یاد نہیں آ رہی تھی‘ میں بس چپ چاپ اپنی سیٹ پربیٹھا رہا‘ جہاز کریش ہوا‘ میری سیٹ جہاز سے نکلی اور میں سیٹ سمیت ہوا میں اچھلتا ہوا ایک گاڑی پرجا گرا‘ وہ گاڑی ایک وکیل صاحب کی تھی‘ وکیل صاحب سائیڈ پر کھڑے تھے جب کہ ان کی بیگم گاڑی کے اندر بیٹھی تھی‘ میں گاڑی کی چھت پر ٹک گیا‘ میرے پورے جسم میں درد ہو رہا تھا‘ وکیل صاحب نے میری سیٹ بیلٹ کھولی۔مجھے گاڑی کی چھت سے نیچے اتارا اور مجھے لے کر ہسپتال کی طرف دوڑ پڑے یوں میں بچ گیا تاہم ظفر مسعود نے ایک حیران کن بات بتائی۔ ان کا کہنا تھا حادثے کے وقت میری والدہ نماز ظہر ادا کر رہی تھیں‘ یہ نماز میں تھیں جب انہیں میرے حادثے کی اطلاع دی گئی‘ میری والدہ نے یہ خبر سننے کے باوجود نماز جاری رکھی‘ یہ اس وقت تک سجدے میں پڑی رہیں جب تک انہیں یہ نہیں بتا دیا گیا اللہ تعالیٰ نے ظفر کو بچا لیا ہے‘ ظفر مسعود کی والدہ کا واقعہ اور سیٹ سمیت زندہ سلامت گاڑی کی چھت پر گرنا اور بروقت ایسے سمجھ دار شخص کا مل جانا جو انہیں سیدھا ہسپتال لے گیا۔یہ واقعی حیران کن تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ جب کسی کو بچانا چاہتا ہے تو وہ ایسے شخص کو سیٹ سمیت جہاز سے باہر گرا دیتا ہے جسے مصیبت کے وقت کلمہ تک یاد نہیں آتا اور دوسری طرف جب یہ کسی کو بلانا چاہے تو یہ حافظ قرآن محمد شبیر جیسے متقی اور پرہیز گار شخص کو کارگو فلائیٹ کے ذریعے دوسرے ملک سے لا کر اس فلائیٹ میں بٹھا دیتا ہے جس کے نصیب میں منزل نہیں لکھی گئی تھی‘ہمارا اللہ اتنا کار ساز‘ اتنا طاقت ور ہے۔