اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’یا اللہ تیرا رحم ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔حافظ محمد شبیر 22 مئی 2020ء کو کراچی میں حادثے کا شکار ہونے والی بدقسمت فلائیٹ کے مسافر تھے‘ موت کتنی ظالم اور چالاک ہوتی ہے حافظ صاحب اس حقیقت کی کلاسیکل مثال ہیں‘ یہ سال بھر سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وقت مقررہ انہیں کھینچ کھانچ کر فلائیٹ پی کے 8303 تک لے آیا‘
کیسے؟ آپ ان کی داستان ملاحظہ کیجیے۔یہ اپنے خاندان کے پہلے حافظ قرآن تھے‘ والد کا انتقال 1994ء میں ہو گیا‘ خاندان میں بڑے تھے لہٰذا بہن بھائیوں کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔یہ کویت چلے گئے‘ وہاں مزدوری کرتے رہے‘ کویت سے کراچی آئے‘ مختلف کام کیے اور پھر سعودی عرب چلے گئے‘ یہ ریاض کے ایک ہسپتال میں اکاؤنٹنٹ تھے‘ 2019ء میں سعودیعرب کے معاشی حالات خراب ہو گئے تو یہ خاندان سمیت امریکا شفٹ ہونے کی کوشش کرنے لگے‘ سعودی عرب سے بھی امریکا جا سکتے تھے لیکن یہ پاکستان آ گئے اور پورا سال امریکی ویزے کی کوشش کرتے رہے‘ صدر ٹرمپ کی وجہ سے امریکا کی پالیسیاں تبدیل ہو گئیں‘ پاکستانیوں کے لیے ویزے مشکل ہو گئے لہٰذا حافظ صاحب کا معاملہ سال بھر لٹکا رہا تاہم فروری میں انہیں امریکا کا ویزہ مل گیا‘ یہ جاب ویزہ تھا‘ یہ اس پر اپنی فیملی کو بھی امریکا لے جا سکتے تھے‘ خاندان نے تیاری شروع کر دی لیکن اس دوران کرونا آ گیا‘ فلائیٹس اور بارڈرز بند ہو گئے یوں حافظ محمد شبیر کراچی میں پھنس گئے‘ مئی کے شروع میں اطلاع ملی‘ صدر ٹرمپ 22 مئی سے جاب ویزوں پر پابندی لگا رہے ہیں جس کے بعد یہ لوگ شاید کبھی امریکا نہ جا سکیں‘ خاندان نے فیصلہ کیا یہ 22 مئی سے پہلے امریکا پہنچ جائیں‘ حافظ صاحب 19 سال سے تراویح پڑھا رہے تھے‘ کویت اور سعودی عرب میں بھی نماز تراویح کی امامت کرتے تھے اور یہ اس سال بھی تراویح پڑھا رہے تھے‘ ان کا خاندان بھی ان کے پیچھے تراویح پڑھتا تھا‘ یہ اس رمضان میں بھی پندرہ دن یہ خدمات سرانجام دیتے رہے‘ 19 مئی کو بھی انہوں نے تراویح پڑھائیں‘ روزہ رکھا اور یہ قطر ائیر ویز کی فلائیٹ سے دوہا روانہ گئے۔
یہ اور ان کا ویزہ کراچی ائیرپورٹ پر کلیئر ہو گیا لیکن یہ جب دوہا پہنچے تو انہیں ائیرپورٹ پر روک لیا گیا‘ امریکا کرونا کی وجہ سے صرف اپنے شہریوں کو داخلے کی اجازت دے رہا تھا‘ امریکی پاسپورٹ ہولڈرز کے علاوہ کوئی شخص امریکا داخل نہیں ہو سکتا تھا چناں چہ قطر ائیر ویز نے انہیں آف لوڈ کر دیا‘ یہ دس گھنٹے دوہا ائیر پورٹ پر بیٹھے رہے‘ واپسی کی فلائیٹ کا معلوم کیا تو پتا چلا یکم جون تک کراچی کی کسی فلائیٹ میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔
قطر کا ویزہ نہ ہونے کی وجہ سے ائیرپورٹ سے باہر بھی نہیں جا سکتے تھے‘ یہ کاؤنٹر پر پریشان کھڑے تھے‘ اچانک کاؤنٹر بوائے نے بتایا آج ایک کارگو فلائیٹ لاہور جا رہی ہے‘ کارگو فلائیٹس مسافروں کو نہیں لے جاتیں لیکن میں آپ کے لیے کوشش کر سکتا ہوں‘ حافظ محمد بشیر نے ہاں کر دی‘ کاؤنٹر بوائے نے کوشش کی اور آپ قسمت دیکھیے کارگو فلائیٹ انہیں لے جانے پر راضی ہو گئی‘ یہ اور ان کا خاندان خوش ہو گئے لیکن ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا یہ جس چانس کو خوش قسمتی سمجھ رہے ہیں یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی بدقسمتی ثابت ہوگا۔
مسافر بڑی تیزی سے آخری منزل کی طرف بڑھ رہا تھا‘ حافظ شبیرکارگو فلائیٹ کے اکیلے مسافر تھے‘ یہ بہرحال لاہور پہنچ گئے‘ پاکستان کے زیادہ تر ائیرپورٹس پر مسافروں کو 14 دن قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے‘ یہ بھی روک لیے گئے لیکن ان کی رپورٹ دو دن میں آ گئی اور یہ نیگٹو نکلے‘انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی‘ 22مئی کو لاہور سے کراچی کے لیے دو فلائیٹس تھیں‘ گیارہ بجے اور ایک بجے‘ دونوں میں سیٹ موجود تھی‘ یہ 11 بجے کی فلائیٹ لینا چاہتے تھے لیکن اَن جانے میں ان کے منہ سے ایک بجے نکل گیا یوں یہ ایک بجے کی فلائیٹ میں سوار ہوئے اور یہ فلائیٹ دو بج کر 37 منٹ پر ائیر پورٹ سے آدھ کلو میٹر دور گر کر تباہ ہو گئی۔
حافظ محمد شبیر نیک‘ پابند صوم و صلوٰۃ اور عاجزی سے لبریز انسان تھے لیکن موت انہیں کھینچ کھانچ کر فلائیٹ پی کے 8303 تک لے آئی‘ اگر موت کی زنجیر کا کوئی ایک حلقہ بھی نرم یا کم زور پڑ جاتا تو یہ صاف بچ جاتے‘ یہ اگر 19 مئی کو کراچی ائیر پورٹ پرروک لیے جاتے‘ انہیں دوہا میں نہ روکا جاتا‘ انہیں قطر میں ایک دو دن کا ٹرانزٹ مل جاتا‘ یہ کارگو فلائیٹ میں سوار نہ ہوتے‘ یہ اگر 14 دن قرنطینہ میں رہ جاتے‘ ان کا کرونا رزلٹ ایک آدھ دن لیٹ ہو جاتا یا پھر یہ ایک بجے کی بجائے 11 بجے کی فلائیٹ لے لیتے تو یہ آج بھی اپنے بچوں کے درمیان بیٹھ کر ہنس کھیل رہے ہوتے مگر موت کے مسافروں کو کس وقت موت دبوچ لے ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔