اسلام آباد(آن لائن) سی ڈ ی اے آفیسرز ایسوسی ایشن مجاہد گروپ نے انکشاف کیا ہے کہ 95 فیصد افسران جعلی ڈگری ، جعلی بھرتی واپ گریڈیشن اور دیگر غیر قانونی طریقوں سے ایڈمن افسر سے ڈائریکٹر گریڈ 19 تک جا پہنچے،۔گریڈ 18 کے افسران میں سینئر ترین ایگزیکٹو کاڈر کے عبدالرزاق نیب زدہ ہیں اور پی ٹی سی ایل کے ایک ریٹایرڈ افسر کو سی ڈی اے میں بھرتی کروانے ، پلاٹ دلوانے اور ابثورب کروانے کی بابت نیب کو خطیر رقم دے کر ضمانت پر تعینات ہیں۔
سی ڈی اے آفیسرز ایسوسی ایشن مجاہد گروپ کا کہنا ہے کہ سید صفدر علی عرف صفدر شاہ سیکرٹری سی ڈی اے بورڈ ڈوگ شوٹر سے سینیٹری سپروائزر سے گریڈ 19 تک جا پہنچا اور ہیومن ریسورسز کے جملہ گھپلوں جن میں غیر قانونی بھرتیاں ، اپ گریڈیشن، ترقیاں انہی کا برین چائلڈ اور طرّہ امتیاز ہے۔ موصوف نے تھرڈ ڈویڑن ماسٹر ڈگری کے حصول کے بعد گریڈ 18 سے 19 میں پروموشن میں اپنی ڈگری کو فرسٹ ڈویڑن قرار دلوایا اور پروموشن کمیٹی کو ماموں بنایا جب کہ انکی ایک گریڈ سے دوسری میں لمبی لمبی چھلانگے انکی قابلیت کا مظھر ہیں۔ ڈگریوں کی جانچ پڑتال بھی انہی کے زیر سایہ پروان چڑھ رہا ہے جہاں پیسے دے کر دو نمبر کو ایک نمبر کیا جاتا ہے ۔خضر حیات ستی پٹواری سے ڈائریکٹر کیسے بنا۔ کون اسکو لایا کیسے پوسٹ نکالی گئی اور کیسے پرچہ مومن آغا نے حال کروایا اور پرچہ بدلہ، کیسے بغیر تھرو پروپر چینل کے ستی صاحب کو زم کیا گیا اور کیسے پچھلی سروس بعد میں ڈال کر موصوف ون ونڈو کے ڈائریکٹر لگے جو ایک المیہ ہے ، انکی ڈگریاں بھی شامل تفتیش ہیں۔ اظہر ملک ، اسد عبّاس ، ملک عطا ، وحید بھٹی ، غلام شبّیر ، عبدالرؤف ، کاشف شاہ، کامران بخت کی گریڈ 16 میں وفاقی محتسب کی جانب سے بھرتی غیر قانونی قرار دے دی گئی جو تمام آج ڈائریکٹر بنے بیٹھے ہیں مگر غضب خدا کا جمے بیٹھے ہیں۔ظفر اقبال نے اپلائی کمانڈر اربن ریسکیو کے لئے کیا مگر بھرتی فائر چیف کر لیا گیا اور پھر ریڈیزیگنیٹ ہو کر ایڈیشنل ڈائریکٹر اور اب ڈائریکٹر ڈی ایم اے ڈائریکٹربنا بیٹھا ہے ،
پبلک ریلیشنز کا وقار حسن فوٹوگرافر کیسے پہنچا گریڈ 18 میں ؟ ضیاء شاہ ، سائمن کیسے اسسٹنٹ مینیجر سے ریڈیزیگنیٹ ہوئے اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنے اور پکّے اور شامل ہوے ایگزیکٹو کاڈر کے دھارے میں۔سید علی بخاری بغیر اشتہار کے اسسٹنٹ اکاؤنٹس افسر بھرتی کیا گیا ، تین ماہ میں ریگولر کیا گیا ، پھر کاڈر تبدیل کروایا گیا اور ایڈمن افسر بنایا گیا اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ترقی دلوا کر آج کل ڈپٹی ڈائریکٹر HR لگایا گیا ہے ، جب کہ گھر گریڈ 20 کے افسر کا سیکٹر آء 8 میں الاٹ کروایا گیا اور 108 افسران کو اسٹیٹ میں رہتے ہوے پلاٹ بھی اسی نے اپنے سائن سے جاری کئے۔انکوائری نا کوئی سوال نا جواب بلکے ترقیاں گاڑیاں پوسٹنگز اور اتھارٹی انکے گھر کی لونڈی ہے ایئر قانون جو یہ کہے وہ بن جاتا ہے باقی سب خام مال ہے۔ چیئرمین عامر علی ان بغل بچوں کے بارے کوئی انکوائری کیوں نہیں ہوتی ؟ کیوں فیاض وٹو جیسے پراپرٹی ٹائیِکون اور غیر قانونی بھرتی کنندہ کا احتساب نہیں ہوتا اور انکی رسی دراز ہے۔