کراچی (این این آئی)کراچی کے سانحہ 12 مئی کو 13 سال گزر گئے ہیں تاہم واقعہ کے متاثرین کو آج تک انصاف نہ مل سکا۔تفصیلات کے مطابق 12 مئی 2007 کو وکلاء تحریک اپنے عروج پر تھی، اْس وقت کے غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر کراچی آرہے تھے کہ اس موقع پر شہر کو خون سے نہلا دیا گیا۔
معزول چیف جسٹس کی کراچی آمد پر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان استقبال کے لیے نکلے اور کئی مقامات پر اْس وقت کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں میں مسلح تصادم شروع ہوا۔شہر کی شاہراہوں پر اسلحے کا آزادانہ استعمال دیکھنے میں آیا اور خون ریزی میں وکلاء سمیت 48 افراد شہر کی سڑکوں پر دن دہاڑے قتل کردئیے گئے تھے۔ان واقعات میں 130 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ درجنوں گاڑیاں اور املاک بھی نذر آتش کی گئیں جس کے بعد شہر کے مختلف تھانوں میں ان افراد کے قتل کے 60 سے زائد مقدمات درج ہوئے جنہیں ملزمان کی عدم گرفتار ی کے بعد داخل دفتر کردیا گیا۔تقریباً ڈھائی سال قبل پولیس نے 60 مقدمات کا چالان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جمع کرایا جس میں اْس وقت کے مشیر داخلہ اور موجودہ میئر کراچی وسیم اختر سمیت 55 سے زائد ملزمان نامزد ہیں اور تمام ضمانت پر رہا ہیں۔15 مئی 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ 12 مئی سے متعلق کیس میں میئر کراچی وسیم اختر سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کی۔انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں اب بھی 18 مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں سے 11 مقدمات وہ ہیں جو داخل دفتر کیے گئے جبکہ مقدمات کی ازسرنو تحقیقات کے بعد ری اوپن کیے گئے ہیں۔وکلاء رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سانحہ 12 مئی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، جسے وکلاء بلیک ڈے کے طور پر مانتے ہیں اور اس کی ذمہ دار حکومت سندھ اور وہ تمام ادارے ہیں جن کا کام شہر میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا ہے۔