بدھ‬‮ ، 22 جنوری‬‮ 2025 

’’گندم سکینڈل میں وفاق ، پنجاب اور کے پی کے کونسے طاقتور وزراء ملوث نکلے ‘‘معروف سینئر صحافی نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ، حیرت انگیز انکشافات

datetime 16  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )گندم اسکینڈل کے حوالے سے ایک اور رپورٹ (ضمنی رپورٹ دوم) بھی ہے جس میں واضح طور پر وفاقی وزیر صاحبزادہ محبوب سلطان، خیبر پختونخوا کے وزیر قلندر لودھی، پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری اور دیگر افراد کو ملک میں گندم اور آٹے کے بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ کے مطابق سندھ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ

2019ء میں گندم کی خریداری کے معاملے پر سندھ کابینہ نے محکمہ خوراک کی جانب سے پیش کی گئی سمریوں کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خریداری نہیں کی جا سکی۔ کچھ حلقوں میں یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ایسا اسلئے کیا گیا کہ سیاسی اشرافیہ سے قربت رکھنے والی کاروباری شخصیات کو موقع دیا جا سکے کہ وہ گندم کے ذخائر خرید کر ذخیرہ کرلیں اور بعد میں انہیں مہنگے داموں فروخت کر سکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گندم اسکینڈل میں ایف آئی اے کی جانب سے جن افراد کو قصور وار قرار دیا گیا ہے ان کی اکثریت اب بھی کام کر رہی ہے اور ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ صرف وفاقی سیکریٹری خوراک کو او ایس ڈی بنایا گیا جبکہ پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری اور سابق سیکریٹری خوراک نسیم صادق نے رپورٹ جاری ہونے کے بعد خود ہی استعفیٰ دے دیا۔ دی نیوز نے بدھ کو ایف آئی اے کی ضمنی رپورٹ حصہ اول کے کچھ حصے شائع کیے تھے جس میں زیادہ تر حصہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے انٹرویو پر مشتمل تھا۔ رپورٹ میں چار سیکریٹری خوراک اور فوڈ ڈپارٹمنٹ کے درجنوں دیگر ملازمین کو بار بار اور قبل از وقت تبدیل کرنے میں ان کے متنازع کردار کا احاطہ کیا گیا تھا جس کا نتیجہ گندم اسکینڈل کی صورت میں سامنے آیا۔ ایف آئی اے کی ضمنی رپورٹ دوم میں ذمہ دار قرار دیے گئے افراد کا موقف ہے لیکن ان کا انٹرویو پہلے نہیں ہو پایا تھا۔ ایف آئی اے کی دونوں رپورٹس میں نتیجہ موجود ہے لیکن وزیرواعظم نے

اب تک اُن افراد کیخلاف کارروائی نہیں کی جنہیں ایف آئی اے نے قصور وار قرار دیا ہے۔ گندم اسکینڈل کے برعکس، ایف آئی اے کی انکوائری کمیٹی نے چینی اسکینڈل پر اپنی رپورٹ جمع کرائی لیکن بعد میں حکومت نے شوگر کمیشن تشکیل دیا جو اپنی رپورٹ 25؍ اپریل کو پیش کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چینی اسکینڈل پر رپورٹ اب تک نتیجہ خیز نہیں ہے لیکن گندم اور آٹا اسکینڈل کے معاملے میں

ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور اپنی تینوں رپورٹس وزیراعظم کو جمع کرا دی ہیں۔ ضمنی رپورٹ دوم کے مطابق، اُس وقت کے وفاقی سیکریٹری خوراک (جو اب وزیر سیفرون ہیں) صاحبزادہ محبوب سلطان نے ایف آئی اے کی ٹیم کو بتایا کہ وہ بذات خود باقاعدگی کے ساتھ اُس وقت کے ایم ڈی پاسکو کے ساتھ رابطے میں تھے اور باقاعدگی کے ساتھ انہیں ہدایت دیتے رہے کہ

خریداری کا ہدف مکمل کیا جائے۔ سلطان نے کہا کہ ایم ڈی پاسکو نے خریداری کیلئے دستیاب گندم کے معیار پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، وزیر نے بتایا کہ انہوں نے ایم ڈی کو بتایا کہ خریداری کے معاملے میں گندم کے معیار پر سمجھوتا نہ کیا جائے۔ وزیر کی رائے کے مطابق، معیار کے مسائل نے بھی گندم کی قلت میں کردار ادا کیا ہوگا۔ تاہم، ایف آئی اے نے نتیجہ اخذ کیا کہ وفاقی وزیر کی

وضاحت میں کوئی دم نہیں کیونکہ ایم ڈی پاسکو کے پاس گندم کی خریداری کیلئے پنجاب اور سندھ میں میدان کھلا تھا جبکہ پنجاب حکومت نے تاخیر کے ساتھ خریداری شروع کی۔ اس صورتحال میں، پاسکو خریداری کے لحاظ سے اپنا ہدف آسانی کے ساتھ پورا کر سکتا تھا۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ وزیر خوراک کے سیکریٹری نے مئی اور جون 2019ء میں ای سی سی کے روبرو کئی سمریاں پیش کیں

جس میں وزارت نے پاسکو اور پنجاب کی جانب سے کی جانے والی خریداری کو ہدف کے مطابق قرار دیا جبکہ دونوں اپنے ہدف کے حصول سے بہت پیچھے تھے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ کے معاملے میں ان سمریوں میں صفر خریداری کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ ان سمریوں میں سرکاری خریداری کے حوالے سے ای سی سی کو درست تصویر پیش نہیں کی گئی لہٰذا ای سی سی باخبر انداز سے

بہتر پالیسی فیصلہ نہ کر پائی۔ اس وقت کے سیکریٹری خوراک کی جانب سے پیش کی گئی یہ سمریاں ای سی سی کے روبرو وزیر کی منظوری سے پیش کی گئیں۔ وزیر سے پوچھا گیا کہ وزارت ای سی سی کے علم میں سرکاری خریداری کے حوالے سے اصل حقائق کیوں نہ لا سکی تو وزیر ایف آئی اے کو کوئی جواز پیش نہ کر سکے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے کے پی کے کے وزیر خوراک قلندر لودھی اور سابق ڈائریکٹر فوڈ

کے پی کے سعادت حسین کا بھی انٹرویو کیا۔ انکوائری کمیٹی کے روبرو دونوں کا موقف یکساں تھا۔ رپورٹ کے مطابق، ان کا کہنا تھا کہ کے پی کے گندم کی قلت کے حوالے سے پہچانا جانے والا صوبہ ہے اور بنیادی طور پر اس کا انحصار پنجاب اور کسی حد تک سندھ پر بھی ہے جس سے وہ اپنی گندم کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ سرکاری خریداری کے معاملے میں بھی، کے پی کے کا انحصار پنجاب کے

سرحدی اضلاع سے ہونے والی سپلائی پر ہے۔ انہوں نے ایف آئی اے کو بتایا کہ 2019ء میں صوبہ اپنا ہدف پورا نہ کر پایا کیونکہ پنجاب نے مئی 2019ء میں کے پی کے کو گندم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ پنجاب میں گندم کی کٹائی کا سیزن اپریل کے وسط سے شروع ہوتا ہے جبکہ پنجاب کی جانب سے گندم کی نقل و حرکت پر پابندی 17؍ مئی کو عائد کی تھی۔

کے پی کے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے پاس یہ پابندی عائد ہونے سے قبل بہت زیادہ وقت تھا کہ وہ پنجاب کے قریبی اضلاع سے گندم کی خریداری کر لیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے پی کے کے وزیر اور حکام یہ جواز پیش نہیں کر پائے کہ گندم کی خریداری میں اتنا بڑا شارٹ فال مکمل طور پر گندم کی نقل و حرکت پر عارضی پابندی کا نتیجہ تھا یا نہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کے پی فوڈ ڈپارٹمنٹ 2019ء میں اپنے

ہدف کی صرف 17؍ فیصد گندم ہی خرید کر سکا جبکہ گزشتہ برسوں میں دیکھا جائے تو کے پی کے اپنی ضرورت کا 70؍ سے 80؍ فیصد حصہ خرید کرتا رہا ہے۔ ایف آئی اے کمیٹی نے کے پی کے وزیر خوراک اور ڈائریکٹر فوڈ کو خریداری کا ہدف پورا نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ایف آئی اے کمیٹی نے پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری اور سابق ڈائریکٹر فوڈ پنجاب ڈاکٹر ظفر اقبال شاکر سے انٹرویو کیا۔

سمیع اللہ نے بتایا کہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کو عوام کی طرف سے اس برے تاثر کا سامنا تھا کہ نچلی سطح پر غلط اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر خوراک پنجاب نے کہا کہ ان کی پالیسی تھی کہ کرپٹ عناصر کو نکال باہر کیا جائے اور وہ بھرتی کے عمل میں اصلاحات متعارف کرانا چاہتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے اصلاحاتی خیالات پر عمل ہوا یا نہیں یا کسی اصلاحاتی نکتے پر باضابطہ طور پر

کام شروع ہوا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے زبانی طور پر فوڈ سیکریٹریز کو ہدایت دی تھی لیکن ان کے کسی بھی خیال پر عمل ہوا اور نہ ہی ان میں سے کوئی باضابطہ طور پر شروع ہو سکا۔ ایف آئی اے کی انکوائری کمیٹی نے کہا کہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ میں اصلاحات ضروری ہیں تاکہ محکمے میں غلط اقدامات کا سلسلہ بند ہو سکے لیکن کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ایف آئی اے نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس میں ذمہ داری وزیر

خوراک پنجاب کی عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اصلاحاتی ایجنڈا مرتب کرنے میں ناکام رہے اور پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کی بیماریوں کا علاج نہ ہوسکا اور صورتحال بدستور جوں کی توں ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق، پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کے موثر انداز اور باصلاحیت انداز سے کام کرنا بیحد ضروری ہے کیونکہ یہ قومی فوڈ سیکورٹی اور مارکیٹ کے استحکام کا معاملہ ہے۔ تاہم، پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ میں بیماریاں جڑوں تک

اور اس کی ہر سطح پر موجود ہیں جن کی وجہ سے ادارہ درست انداز سے کام نہیں کر پا رہا جن میں خریداری، اسٹوریج، تقسیم، گندم کی پسائی اور مارکیٹ میں آٹے کی فراہمی جیسے کام شامل ہیں۔ سندھ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کابینہ نے 2019ء میں گندم کی خریداری کے حوالے سے فوڈ ڈپارٹمنٹ کی سمریوں پر کوئی فیصلہ نہ کیا نتیجتاً خریداری ممکن نہ ہو پائی۔ کچھ حلقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ایسا سرکاری اشرافیہ سے قربت رکھنے والی کاروباری شخصیات کو موقع فراہم کرنے کیلئے کیا گیا تاکہ وہ گندم کے ذخائر خرید کر انہیں ذخیرہ کر لیں اور بعد میں انہیں مہنگے داموں فروخت کر سکیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اسی طرح


بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…