اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار اپنے کالم ’’جاگ جاؤ، برا وقت ابھی آنا باقی ہے‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ گزشتہ کئی سالوں سے چین ، امریکا کی اقتصادی طاقت کو چیلنج کررہا تھا لیکن کورونا وائرس نے دونوں ممالک کی طاقت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ چین نے کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کا واحد حل لاک ڈائون نکالا ہے اور اب پوری دنیا اسی چینی ماڈل پر عمل پیرا ہے۔ ابتدائی طور پر چین اور امریکا ایک دوسرے پر اس وائرس کو پھیلانے کا الزام لگا رہے تھے۔
عراق کے ایک رہنما مقتدیٰ الصدر نے 11 مارچ کو ٹوئٹ کرکے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے دشمن ممالک میں کورونا وائرس پھیلا یا ہے۔ تمام جوہری قوتوں کی اسٹاک مارکیٹیں کریش ہوچکی ہیں۔ کاروبار بند ہیں۔ صرف تہجیز وتکفین کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور امریکا کے سائنس دان 2007 سے کورونا وائرس کے خطرے سے آگاہ کررہے تھے مگر کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ اکتوبر، 2007 میں کلینیکل مایکروبائیلوجی ریویوز نامی مطالعہ شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین میں خطرناک وائرس کے حوالے سے صورت حال ٹائم بم جیسی ہے۔ امریکی سوسائٹی برائے مائیکروبائیولوجی کے اس جرنل میں جسے چار سائنس دانوں نے لکھا تھا جو کہ ہانگ کانگ کی یونیورسٹیوں میں کام کررہے تھے۔ ان میں سے ایک کیوک ینگ یوین کا تعلق چین سے تھا جس نے مختلف چینی ذرائع سے معلومات اکٹھی کی تھیں۔ اس نے واضح طور پر لکھا تھا کہ جنوبی چین میں چمگادڑوں سمیت دیگر ممالیہ کے کھانے کا رجحان ایک ٹائم بم ہے۔ انہوں نے سارس اور دیگر خطرناک وائرس کے لوٹ آنے کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے بھی 2012 میں دوبارہ خبردار کیا تھا کہ امریکا کو دہشت گردی سے زیادہ خطرہ وبائی امراض سے ہے۔ لیکن امریکی پالیسی سازوں نے اسے نظرانداز کیا۔ وہ لوگ 100 ارب ڈالرز سالانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خرچ کررہے تھے۔ جب کہ وبائی امرض کے لیے صرف 1 ارب ڈالر رکھے جارہے تھے۔ بل گیٹس نے 2015 میں خبردار کیا تھا کہ ایبولا جیسے وبائی امراض ان کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں تھے کیوں کہ یہ ایک سال میں لاکھوں افراد کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ مگر انہیں بھی نظرانداز کیا گیا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی ہوم لینڈ سیکورٹی ایڈوائزر لیزا موناکو نے ممکنہ وبائی امراض پر کچھ توجہ دی تھی مگر پھر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گئے۔ معروف امریکی میگزین اٹلانٹک نے 2018 میں خبردار کیا تھا کہ اگلا طاعون انفلوئنزا کی صورت میں آئے گا۔ امریکا کے جان ہاپکنز سینٹر برائے ہیلتھ سیکورٹی نے 2019 میں خبردار کیا تھا کہ چین سے ایک نیا وائرس آسکتا ہے مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اسے نظرانداز کیا۔ جان ہاپکنز کے ماہرین نے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے ایک ارب ڈالرز اضافے کا مطالبہ کیا تھا ۔مگر ٹرمپ اسے بار بار نظرانداز کرتے رہے وہ سمجھتے تھے کہ صرف چین کو ہی اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ وہ کورونا وائرس کے بجائے صرف میڈیا پر توجہ مرکوز کیے رہے۔