ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کورونا، کورونا حکومت کرو نا، کرو نا‘ احتیاط، احتیاط اور صرف احتیاط۔ آسان نسخہ یہاں تو لوگ بھوک سے، غلط علاج سے، گندگی اور گٹر کا پانی پینے سے مر جاتے ہیں کورونا کیا چیز ہے؟ یہ تو اُن کیلئے خطرناک ہے جہاں کبھی کبھی وائرس آتا ہے، تہلکہ خیز انکشافات

datetime 23  مارچ‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار مظہر عباس اپنے کالم ’’کورونا کی دُنیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ہم بھی عجیب قوم ہیں قرض بھی باہر سے لیتے ہیں اور مرض بھی اور پھر یہ اگر وبا کی صورت اختیار کر لے تو قرض واپسی کی معافی بھی طلب کرتے ہیں۔ وائرس آ گیا ہے مگر گھبرانا نہیں ہے، یہ بھاگ جائے گا جب دیکھے گا کہ یہاں تو ہر طرف ہر طرح کا وائرس ہے۔یہاں تو لوگ بھوک سے، غلط علاج سے،

گندگی اور گٹر کا پانی پینے سے مر جاتے ہیں۔ کورونا کیا چیز ہے؟ یہ تو اُن کیلئے خطرناک ہے جہاں کبھی کبھی وائرس آتا ہے۔ جہاں امیر اور غریب سب بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ منرل واٹر ہر آدمی تو نہیں خرید سکتا لہٰذا ایک عام آدمی کو صاف پانی غلطی سے بھی مل جائے تو ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے مگر حکمراں ہوں یا عوام‘ مجال ہے کہ کبھی ذمہ داری محسوس کی ہو۔ دُنیا میں 10ہزار افراد اُن ممالک میں مختلف بیماریوں سے ہلاک ہوئے جو دُنیا کے محفوظ ترین اور صحت کی سہولتوں کے حوالے سے مثالی ملک ہیں۔ ہمارے تو جسموں میں پتا نہیں کتنے وائرس ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو چور، ڈاکو، دہشت گرد بھی کبھی کبھی ماسک پہنتے ہیں کیونکہ پتا ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔نامور شاعر احمد فرازؔ نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا۔۔۔دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔۔۔۔مگر یہ سمجھ کورونا وائرس کے بعد آیا۔ اب تو ہم کورونا کی دُنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ملاپ بڑھانا، ہاتھ بڑھانا، ہاتھ ملانا، دُوسرے کی کرسی پر بیٹھنا ماسوائے اقتدار کی کرسی کے جو جتنی بھی وائرس زدہ ہو، کوئی چھوڑنے کو تیار نہیں اور دُوسرا لینے پر تیار، غرضیکہ اب یا تو شادی ہو نہیں یا مہمانوں کے بغیر ہو۔ فاصلہ اتنا رکھنا کہ ایک دوسرے کو پتا ہی نہ چل سکے کہ آپ ایک دُوسرے سے گفتگو کر رہے ہیں یا کسی تیسرے سے۔یہ ایک نئی دُنیا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے مگر مجال ہے کہ

کبھی مسلمانوں نے اس پر عمل کیا ہو ورنہ جہاں کی آبادی 95فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہو وہاں، گندگی اور غلاظت اس انتہا کی ہو؟ مگر یہی ہمارا کلچر ہے اور جب تک ’کورونا‘ کا خوف نہیں تھا تو Sanitizerکا استعمال دُور دُور تک نہیں تھا۔اب مارکیٹ میں ملتے نہیں ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ صابن کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ کورونا کی دُنیا ایک ایسی دُنیا ہے جہاں فاصلے رکھنے پر فاصلے کم ہو رہے ہیں،

ہاتھ نہ ملانے پر لوگ خوش ہو رہے ہیں۔اب کسی کو اپنے پیاروں سے یہ شکایت نہیں کہ وہ ملتا نہیں ہے بلکہ آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام یہ دیا جا رہا ہے کہ ’’ادھر ہم خوش، اُدھر تم‘‘ دُور سے سلام اور آداب پر یا ہیلو ہائی پر گزارا ہو رہا ہے۔ برسوں پُرانی بات ہے، غالباً 70کی دہائی کی۔ جامعہ کراچی میں ایک وائس چانسلر نے ایک حکم کے ذریعے طلبہ و طالبات میں کم از کم تین سے پانچ فٹ کا فاصلہ رکھنے کو کہا۔

موصوف کبھی کبھی چھاپہ مار کر لابی اور کلاس میں خلاف ورزی کرنے والے کو پکڑتے بھی تھے۔ آج زندہ ہوتے تو بڑے خوش ہوتے کہ دیکھو! جب میں کہتا تھا تو نہیں مانتے تھے، اب تو فاصلہ ڈبل کر دیا ہے۔رہی بات حکومتوں کے اقدامات کی تو برسوں تنقید اور الزامات کا نشانہ بننے والی سندھ حکومت نے بروقت اقدامات کرکے اپنے سخت ترین مخالف سے بھی داد وصول کی۔ دیکھیں اگر آپ صرف صفائی کا خیال رکھیں

اور ہاتھ کی صفائی صرف صابن اور Sanitizerسے کریں تو اچھا طرزِ حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ اور اُن کی ٹیم اور کچھ ڈاکٹرز، فیصل ایدھی جن کے والد عبدالستار ایدھی بہت یاد آ رہے ہیں، مبارکباد کے مستحق ہیں۔وفاقی مشیرِ صحت ڈاکٹر ظفر کی قیادت میں اُن کی ٹیم نے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔ کوشش سب نے کی کچھ جلدی، کچھ تاخیر سے۔ خوف مجھے ایک چیز کا ہے کہ

’’کورونا وائرس‘‘ چلا گیا تو کیا ہوگا۔ کیا ہم پھر سے گندے ہو جائیں گے، پھر ہاتھ ملا کر دھونا بھول جائیں گے، پھر ملاپ اس حد تک قائم کر لیں گے کہ۔۔۔سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے۔۔۔۔ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے۔۔۔۔خُدا کرے کہ یہ وائرس جلد ختم ہو کیونکہ ابھی تو ڈینگی کو بھی آنا ہے۔ ڈینگی آیا تھا تو دُعا مانگتے تھے کہ شہباز شریف بھی واپس آ جائیں، اقتدار میں نہ سہی ملک میں ہی آ جائیں، سو آگئے۔

یہ عجیب ہی وائرس ہے کہ دُنیا میں عبادت کرنے کا نظام بھی بدل گیا۔ میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں یہ لمبا چلا تو عید پر گلے کیسے ملیں گے۔ بچے عیدی کیلئے کہاں جائیں گے یا عید مبارَک اور عیدی کیلئے بھی آن لائن سروس کا استعمال ہوگا۔ جہاں کابینہ کے اجلاس وڈیو سروس پر ہو رہے ہوں، اپوزیشن کی تحریک وڈیو لنک پر چل رہی ہو، ہم کھڑے ہیں چاہے معیشت بیٹھ گئی ہو وہاں گھبرانا نہیں، حکومت پانچ سال پورے کرے گی ’کورونا، کورونا حکومت کرو نا، کرو نا‘ احتیاط، احتیاط اور صرف احتیاط۔ آسان نسخہ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…