اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں سماجی کارکن ماروی سرمد اور خلیل الرحمان قمر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات گالم گلوچ تک جا پہنچی۔ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور ہر کوئی اس پر اپنا اپنا ردعمل دے رہا ہے۔ ایسے میں معروف صحافی اختر صدیقی نے بھی ماروی سرمد کے بارے انکشاف کیا ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ عورت مارچ کہاں سے شروع ہوا اس کی بنیاد کیا ہے،
اس پر انہوں نے کہاکہ امریکہ میں ایک خاتون زولوجی تھی اس نے اپنے خاوند کے خلاف مقدمہ درج کرایا اس میں اس نے الزام لگایا کہ اس کے خاوند اس کی مرضی کے خلاف حق زوجیت ادا کرتے ہیں، عدالت نے خاوند کو طلب کیا اور طویل بحث ہوئی۔ اس بحث میں 80 سے زائد قانون دانوں نے حصہ لیا، اس کیس میں قانون نافذ کرنے والوں اداروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کو بھی شامل کیا گیا۔ اس مقدمے میں گیارہ سال لگے لیکن پھر بھی عدالت اس کا فیصلہ نہیں کر پائی۔ یہ معاملہ ایک اور عدالت کو بھجوا دیا گیا لیکن وہاں بھی یہ معاملہ سالوں تک چلا مگر وہاں بھی فیصلہ نہ ہوا، آخر ایک ضلعی عدالت نے فیصلہ کیا اور کہا کہ عورت کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں، عدالت نے انبیاء کرام پر نازل کی گئی کتابوں اور اسلام کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ یہ اختیارات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے نہیں دیے ہیں۔ اس وقت یہ سلسلہ رک گیا لیکن 1902 میں یہ دوبارہ امریکہ میں ہی اٹھایا گیا پھر یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا لیکن 1909ء میں دوبارہ اس مسئلے نے سر اٹھایا اور خواتین نے سات مطالبات پیش کر دیے، ان مطالبات میں پہلا مطالبہ ہی میرا جسم میری مرضی تھا۔ اس سارے معاملے میں مغرب ہی سب سے آگے بڑھی ہے اور اس نے ہی مطالبات پیش کئے ہیں۔ انہی کے خیالات اور خواہشیں تھیں جس کو پنپنتے ہوئے ایک عرصہ لگا۔ اس طرح آج سے بیس سال پہلے یہ وباء پاکستان پہنچ گئی۔ پہلے فیز میں صرف دس خواتین نے آواز اٹھائی۔ معاملہ چلتا رہا اور 2019ء میں عورت مارچ ہوا اور حیرت انگیز نعروں پر مشتمل بینر بھی آویزاں کئے گئے۔
اس میں بیٹے، والد اور خاوند کی تضحیک کی گئی۔ اس کام کے لئے بیرونی فنڈنگ ہوتی ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ذرائع کے مطابق 2019ء میں اس کام کے لئے سترہ کروڑ روپے دیے گئے جبکہ اس سال بھی کروڑوں روپے دیے گئے ہیں۔ اس موقع پر سینئر صحافی نے اسلام میں عورت کو دیے گئے حقوق پر بھی بات کی، ماروی سرمد کے سوال پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ عورت آج جس بات کا تقاضا کر رہی ہے اس کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عورت اگر یہ چاہے کہ وہ اپنے معاملات میں شتر بے مہار ہو جائے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو اس طرح کوئی حق اسلام میں نہیں دیا گیا ہے۔ پہلے یہ خواتین مارچ تین شہروں تک ہوئے تھے لیکن اب یہ 13 شہروں میں ہوں گے، ان خواتین کی تعداد 6 سو بتائی جا رہی ہے اور یہ مختلف اضلاع میں حیا مارچ کرنے جا رہی ہیں۔