کراچی (این این آئی) مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن ، مفتی محمد رفیق الحسنی،مفتی محمد الیاس رضوی،علامہ احمد علی سعیدی، مفتی محمد اسماعیل نورانی اور مفتی محمد عبداللہ ضیائی نے مشترکہ فتوی جاری کیا ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب کی طرف سے بعض ممالک کے عمرہ زائرین کو کرونا وائرس کے خطرے کے پیشِ نظر ان کے اپنے ممالک کے ائیر پورٹ پر روک دیا گیا اور انہیں واپس ہونا پڑا،
حالانکہ وہ عمرے کا احرام باندھ چکے تھے۔اس سلسلے میں فقہِ حنفی کا اصولی موقف یہ ہے کہ اِحصار یعنی سفرِ عمرہ میں رکاوٹ میقات سے پہلے پیش آئے یا بعد کو، محرِم پر لازم ہے کہ وہ کسی کو اپنا وکیل بناکر حرم میں دم دے اور دم کا جانور ذبح ہونے کے بعد وہ حلق کرکے احرام سے باہر آجائے کہ یہ بہتر ہے ضروری نہیں،یعنی اس کے بجائے ممنوعاتِ احرام میں سے کوئی بھی فعل کرلے مثلا قصر ہی کرلینا یا خوشبو لگالینا وغیرہ۔لہذا جن لوگوں کے پاس یہ سہولت ہے کہ وہ حدودِ حرم میں اپنے وکیل کے ذریعے دم دے سکتے ہیں تو وہ ایسا ہی کریں،(بدائِع الصنائِع ،باب الاِحصار اور فقہ حنفی کی تمام معتبر کتبِ فتوی میں یہ مسائل موجود ہیں)۔ عام طور پر اِحصار (یعنی عمرے یا حج کی ادائی میں رکاوٹ پیش آنے) کے مسائل اس صورتِ حال میں پیش آتے رہے ہیں کہ محرِم حدودِ حرم کے قریب پہنچ گیااور مِن جانِبِ اللہ یا مِن جانِبِ العِبادکوئی رکاوٹ پیش آگئی۔لیکن ہمیں جو صورتِ حال درپیش ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں سے عمرے کا احرام باندھ کر ائیرپورٹ پہنچ چکے تھے اور سعودی عرب نے ان ممالک کے عمرہ زائرین کے داخلے پر احتیاطی تدابیر کے طور پران ممالک کے عازمین عمرہ پر پابندی لگادی جہاں کرونا وائرس کے مریض رپورٹ ہوچکے تھے۔ عام طور پر عازمینِ عمرہ کسی ایجنٹ کی معرفت بکنگ کراتے ہیں اور گروپ کی صورت میں جاتے ہیں، تو وہ اپنے ایجنٹ کی معرفت سے حدودِ حرم میں دم دے سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ خداترس اور قابلِ اعتماد ہو۔
محض احرام کی چادریں اتارنے سے احرام سے باہر نہیں آئیں گے تاوقتیکہ حدودِ حرم میں دم دے کراحرام سے نکلنے کی نیت سے ممنوعاتِ احرام میں سے کوئی فعل نہ کرلیں،جیساکہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اس عرصے میں احرام کے منافی جو کام کریں،اس کی جزادینی ہوگی ، جس کااپنا عزیز یا جاننے والا مکہ مکرمہ یا جدہ میں ہے، ان کے لیے مزیدآسانی ہے۔محض احرام کی دوچادریں پہننے سے آدمی محرم نہیں ہوتاتاوقتیکہ وہ نیت کرکے تلبیہ پڑھ لے،تب وہ محرِم ہوگا۔ جولوگ دم دے کر عمرے کے احرام سے باہر آچکے ہیں ،حالات سازگار ہونے پر اورحرم کے سفر پر پابندی اٹھنے کے بعد انہیں عمرے کی قضا کرنی ہوگی، رسول اللہ ؐ نے بھی صلح حدیبیہ کے بعد اگلے سال عمر القضا ادا کیا تھا۔