کراچی (این این آئی) ایران اورافغانستان میں کورونا وائرس پھیلنے کی اطلاعات پربلوچستان کے ساتھ سندھ میں بھی تشویش دوچند ہوگئی ہے،ابتدائی طورپربلوچستان کے ساتھ ایرانی سرحد سیل تو کردی گئی تھی اورکراچی سمیت صوبہ بھرسے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے زائرین کی براستہ بلوچستان ایران عراق اورشام روانگی پربھی پابندی لگادی گئی
مگرکراچی میں ایرانی نثراد منقسم خاندانوں کے افراد کی پاکستان ایران خفیہ راستوں سے آمدورفت جبکہ بعض افغان نثراد خاندانوں کی طرف سے بھی ایران آمد ورفت کے لیے پاکستان کے سرحدی علاقوں مند،جیونی، پسنی تربت گوادر کے سرحدی علاقے کے خفیہ راستے استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں ہیں،اسی طرح ایرانی سرحد پرواقع پاکستانی اضلاع میں اشیائے خورونوش اورمیٹھا پانی بھی ایران سے منگوایا جاتا ہے۔بلوچستان اورسندھ حکومت نے الرٹ تو جاری کیا،پاک ایران سرحد پر وائرس کی روک تھام اور اسکریننگ کے انتظامات کیے گئے مگر کراچی ائیر پورٹ پر ایران سے آنے والوں کو نہ جانے کیوں چیک ہی نہیں کیا گیا سرحدی علاقوں سے چیک پوائنٹ سے آمدورفت والوں کے لیے تو حکومت کے بقول انتظامات ہیں لیکن جو لوگ خفیہ راستوں سے آمدورفت جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب بھی کراچی آرہے ہیں وہ کورونا وائرس کے مزید پھیلا کا سبب بن سکتے ہیں۔مہلک ترین وائرس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ پڑوسی ملک ایران افغانستان کے خفیہ سرحدی راستوں سے پاکستان میں داخل ہونے والے باشندوں پربھی نگاہ رکھی جائے،بلوچستان اورسندھ حکومت کا دعوی ہے کہ وہ کرونا وائرس کو روکنے کے لیے تمام تر اقدامات کر رہی ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ کراچی سے براستہ بلوچستان گوادر تربت کے مختلف سرحدی راستوں سے آمدورفت اب بھی جاری ہے اور خفیہ سرحدی راستوں سے کراچی علاج معالجے اور دیگر ضروریات کے لیے آنے والے افراد کی آمد و رفت بلا روک ٹوک بذریعہ روڈ ٹرانسپورٹ جاری ہے کراچی میں لیاری یوسف گوٹھ اور لی مارکیٹ سمیت کسی بس اڈے پر چیکنگ یا اسکریننگ کا کوئی انتظام ہی نہیں جبکہ عام شہریوں کو کرونا وائرس کے حوالے سے کوئی آگاہی نہیں دی گئی، انہیں بس یہ معلوم ہے کہ ماسک پہننا ہے۔