کراچی(این این آئی)معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی بھی ایسی پالیسیاں نہ ہی مرتب اور نہ ہی اپنائی گئیں ہیں جس کا براہ راست فائدہ عوام کو ملتا اور ملکی معیشت میں بہتری نظر آتی۔پاکستانی معیشت کسی طورپر بھی صحیح سمت میں نہیں ہے بلکہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ مصنوعی طریقوں سے کام کررہی ہے۔جو اعداد وشمار حکومت اور سرکاری ادارے دکھاتے اور بتاتے ہیں وہ اصل حقائق کے منافی ہیں اور یہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے۔
قیام پاکستان سے لے کر تاحال پاکستان 23 بار آئی ایم ایف کے پاس جاچکا ہے اور اگر پالیسی سازی میں فی الفور بڑی تبدیلیاں نہیں کی گئیں تو مستقبل میں بھی ملک کو آئی ایم ایف اور دیگر کے پاس جانا پڑے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ معاشیات کے زیر اہتمام کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ ینگ اکنامسٹس کانفرنس2020 ء بعنوان: ”پاکستان میں پائیدارگروتھ اور معاشی ترقی“ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ ماضی میں اور موجودہ حکومت کی ترجیحات میں ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ شامل ہے تاہم اس اہم بات کو نظر اندازکردیاجاتاہے کہ جب تک اخراجات میں کمی، برآمدات میں اضافہ،آمدنی کے نئے ذرائع،زرعی پیداوار میں اضافہ اور نئی انڈسٹریز کا قیام عمل میں نہیں لایا جائے گا،اس وقت تک پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سالانہ خسارہ اس وقت پیدا ہوتاہے جب آپ کے اخراجات ٹیکس کی آمدن سے زیادہ ہوں جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس وقت پیدا ہوتاہے جب درآمدات برآمدات سے زیادہ ہوں۔ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے ماضی قریب اور حالیہ معاشی صورتحال کا موازنہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت نے جو اقدامات کئے ہیں اس سے ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی۔جب تک ہم معاشی چیلنجز اور ان کی وجوہات،پالیسی،ایکشنز اور ان کے اثرات اور اسٹرکچرل ایشوز کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک ہمیں معاشی مسائل کا ادراک نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ معیشت سست روی کا شکار ضرورہے مگر امید ہے کہ یہ بہت جلدمستحکم صورت اختیار کرلے گی کیونکہ پالیسیوں کا تعین درست سمت میں کیا گیا ہے۔ملکی معیشت کے خسارے کو مد نظر رکھتے ہوئے سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہواہے۔گذشتہ مہینوں میں جو انڈیکیٹرز سامنے آئے ہیں وہ کافی حوصلہ افزاہیں اور اسی وجہ سے حکومت کو یقین ہے کہ معیشت جلد مستحکم ہوجائے گی۔سندھ حکومت کے چیف اکنامسٹ ڈاکٹر نعیم الظفر نے صوبائی حکومت کے مختلف منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کے مکمل ہوتے ہی صوبے اور بالخصوص کراچی میں نمایاں تبدیلی نظرآئے گی۔ماضی میں پروڈکٹویٹی بہتر نہیں تھی تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے۔
پائیدار معیشت کے بغیر ہم اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔صوبائی حکومتوں اور وفاق کو چاہیئے کہ وہ مائیکرو اور میکرو لیول پر کام کریں تاکہ مثبت تبدیلیاں جلد رونماہوسکیں اور معاشی صورتحال میں واضح بہتری آسکیں۔جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ یہ بہت ہی سنجیدہ اور قومی ایجنڈا ہے،پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل جل کرکام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن ہوسکے اور پاکستان کی معیشت میں بہتری آسکیں۔پبلک پالیسی اس حوالے سے ایک اہم کردار اداکرسکتی ہے اور مستقل،پائیدار پالیسیوں کے ذریعے ہم تمام چیلنجز جن کا پاکستان کو سامنا ہے کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔سوشیواکنامک ڈیولپمنٹ ملک کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے اور ملکی وسائل کو اس حوالے سے استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔دریں اثناء ڈاکٹر شاہد قریشی،ایم اے فیصل خان،ڈاکٹر محمد صابر،صہیب جمالی اور عثمان حنیف نے پینل ڈسکشن بعنوان: نیشنل یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام ”کامیاب جوان پروگرام“ میں شرکت کی۔