اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) تو اب کیا ہو گیا کہ مولانا کی تمام سیاست بقول ڈاکٹر شاہد مسعود کے ڈھیر ہو گئی اور وہ انقلاب کا جھنڈا لے کر نکل کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔ سینئر کالم نگارشاہین صہبانی اپنے کالم ’’مولانا فضل الرحمن کی آسان سیاست‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ فرق صرف یہ پڑا کہ عمران خان نے ان کے سیاسی قلعے پر ایسی یلغار کی کہ ان کو کے پی کے کی سیاست سے ہی باہر نکال پھینکا۔
اب نہ وہ خود کہیں کے رہے اور نہ ان کا کوئی پوچھنے والا رہا۔ ان کے پاس ایک بڑا ہی مضبوط سیاسی کارڈ تھا اور وہ ان کے طالبان سے روابط اور دوستیاں تھیں کیونکہ طالبان کے اکثر لیڈر اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ میں پڑھے تھے اور مولانا پاکستانی حکومت اور باقی دنیا کیلئے ایک اہم رابطہ کار تھے۔ اس کو انہوں نے استعمال بھی کیا مگر عمران خان کے آنے کے بعد اور حالات کے رخ نے وہ کارڈ بھی ناکارہ کر دیا۔ اب طالبان خود امریکہ سے براہ راست بات کرتے ہیں تو مولانا درمیان سے غائب ہو گئے۔ عمران خان کے الیکشن جیتنے کے بعد مولانا اتنے غصے میں تھے کہ وہ اپنی سیاسی چالیں اور پرانی گڑ بڑ بھول گئے۔ انہیں شاید یقین نہیں تھا کہ عمران خان کے پی کے کے علاوہ پنجاب اور اسلام آباد میں بھی حکومتیں بنا لیں گے اور وہ ڈنڈا لے کر ن لیگ اور پی پی پی کی بھی دوڑیں لگوا دیں گے۔ شاید مولانا کے روابط پنڈی سے بھی کٹ گئے تھے، ورنہ وہیں سے وہ اتنی خبر تو لے آتے کہ خلائی مخلوق آج کل کتنی بلندی پر پرواز کر رہی ہے اور کہاں ڈیرے ڈالے گی۔ ہو سکتا تھا اگر وہ شروع شروع میں زیادہ گالی گلوچ نہ کرتے اور الیکشن کے نتائج مان لیتے تو مرکز میں اور کے پی کے اور بلوچستان میں ان کو کافی حصہ مل جاتا اور عمران خان اور خلائی مخلوق کو ایسی مخلوط حکومت نہ بنانی پڑتی جس پر کوئی ہر وقت بلیک میل کر سکے۔ مگر اب تو بہت دیر ہو چکی
اور اب مولانا صاحب گڑ بڑ میں بہت آگے نکل گئے۔ ان کے بیانات تو اب میڈیا میں رپورٹ کرنے اور دکھانے یا سنانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ کسی نے ان کو دھرنے سے پہلے کوئی خواب دکھا دیے تو وہ لشکر کشی کر بیٹھے مگر اس کو پھُر کرنے والوں نے پانی ڈال کر اور دانا ڈال کر ٹھنڈا کر دیا۔اس دوران ان کے ساتھ باقی بڑی پارٹیاں بھی ہاتھ کر گئیں۔ ان کو آگے لگا کر پیچھے سے ن اور پی پی نے اپنے اکثر الّو سیدھے
کر لئے اور مولانا کو بول بچن کے بھلاوے میں ہی پھنسائے رکھا۔ اتنے زیرک جن کو حامد میر صاحب پاکستان کا سب سے ذہین ترین سیاستدان کا لقب کئی دفعہ دے چکے ہیں(حالانکہ پی ایچ ڈی زرداری کو ہی مانا جاتا ہے) اس دفعہ مار کیسے کھا گیا۔ کہاں وہ خواب کہ وزیر اعظم بننے کی خواہش اور صدر کا الیکشن لڑنے کی تگ و دو اور کہاں یہ دن کہ ن لیگ اور زرداری بھی بیچ دریا میں چھوڑ کر یہ جا اور وہ جا۔
تو اب مولانا کی سیاست کہاں کھڑی ہے۔ عمران خان سے ہاتھ ملانا تو شاید ان کیلئے ممکن نہ ہو لیکن غور سے سوچیں تو ایک راستہ ہے اور وہ ہے چودھری برادران کے ذریعے۔ آخر وہ دھرنے میں جب بالکل پھنس گئے تو چودھری صاحبان نے ہی انہیں پتلی گلی دکھائی اور باہر نکالا۔ ان کے کہنے پر اور کسی نامعلوم فرد یا افراد کی ضمانت دے کر انہوں نے مولانا کو دھرنے سے نکالا۔
مجھے نہیں یقین کہ کام کروانے والے لوگ چودھری صاحبان کی خدمات ہی حاصل کریں گے اگر انہیں مولانا کو کچھ پیغام دینا ہوتا تو بے شمار طریقے اور لوگ ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ چودھری صاحبان نے مولانا کو گھما دیا۔ مگر اب وہ ایک کام تو کر سکتے ہیں۔ اگر مولانا صاحب تیار ہو جائیں تو چودھری صاحبان مولانا کو عمران خان سے ہاتھ ملانے لے جا سکتے ہیں اور اگر یہ ہوا کا جھونکا ذرا سا بھی چلا تو
مولانا فوراً راضی ہو سکتے ہیں۔ اب امتحان ان کی ذہانت کا ہے اور بقول ان کے والد اب ذرا گڑ بڑ کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا نیا دھرنا پھر کسی ن لیگ یا پی پی والوں کو تو فائدے پہنچا دیگا مگر مولانا ہاتھ ملتے رہ جائینگے۔ یہ انقلاب مولانا کے بس کی بات نہیں وہ کسی بڑی نہیں تو چھوٹی ہی سہی سرکاری کرسی کی تلاش کریں۔ شاید سب کا فائدہ ہو جائے۔