اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایک کابینہ رکن نے کسی کو بتائے بغیر ایک لگژری گاڑی خریدی۔ کوشش یہ کی گئی کہ اس بات کو راز رکھا جائے۔روزنامہ جنگ میں شائع سینئر صحافی عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق بتایا گیا ہے کہ مذکورہ وزیر کو اندرونی تحقیقات کا سامنا ہے وہ اکثر اس انٹیلی جنس ایجسنی کو برا بھلا کہتے پائے گئے جس نے ان کے پاس لگژری گاڑی موجود ہونے کی اطلاع دی۔ ایک اور کابینہ رکن نے ایک انتہائی متمول ’’خواہشمند‘‘
کی پیشکش ٹھکرادی جو ان کا اثر و رسوخ اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ البتہ اپنے انکار کیوجہ انہوں نے جو بتائی وہ یہ تھی کہ ’’ہماری نگرانی کی جاتی ہے‘‘ ایک وزیر اعلی اور ان کی کابینہ بہاولپور کے علاقے چولستان میں کار ریلی دیکھنے گئے جہاں وزیراعلی کا ہیلی کاپٹر مسلسل تین دن رکشہ کی طرح استعمال ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک ممکنہ نیب کیس بنتا ہے۔ ایک وفاقی وزیر کو پہلے ہی نیب انکوائری کا سامنا ہے۔ حالیہ دور میں انہوں نے جو دولت کمائی اس بارے میں دو اسکینڈلز کی تحقیقات زیر التوا ہیں۔ مذکورہ کیسز کا پتہ ایک ایجنسی نے چلایا جس کی ابھی نیب کو اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ خیبرپختون خوا کے دو عم زاد وزراء عاطف خان اور شہرام ترکئی نے ایک ریٹائرڈ شخص سے ملاقات کی۔ ان کی دانست میں ملاقات خفیہ تھی لیکن ان پر نظر رکھی اور اطلاع کردی گئی۔ کابینہ ارکان جب مل بیٹھتے ہیں تو موضوع آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی اور بیروزگاری نہیں ہوتا بلکہ بات ہوتی ہے کس طرح ہر قدم پر تاڑتی نگاہوں سے بچا جائے۔ ایک معلومات رکھنے والے وزیر کے مطابق وہ ایسے زیر استعمال جدید مو اصلاتی آلات سے باہمی معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ وہ بیکار اپنی جاسوسی کرنے والوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے کچھ مختلف ذرائع سے وزیراعظم عمران خان کو ایسا رویہ ترک کرنے کے لئے باور کرانے کی کوشش کی لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔
ان پر نظر کس نے رکھی ہوئی ہے؟ یہ ایک سویلین ایجنسی ہے۔ جو تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل زیادہ تر دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں مصروف رہی۔ اس ایجنسی کو جدید دورکے خاصے وسائل کےساتھ آلات اور تربیت فراہم کی گئی ہے۔ اب اس کی توجہ اینٹی کرپشن پر م رکوز ہوگئی ہے۔ اپوزیشن اس کا واحد ہدف تھا لیکن اب وزراء پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ وزیراعظم کھل کر کہتے ہیں کہ
کو ن کیا ہے یہ جاننے کے لئے مذکورہ ایجنسی ہی معلومات کے حصول کا ذریعہ ہے لیکن ایجنسی کا یہ کردار خود اس کے خق میں نقصان دہ ثابت ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ حالیہ شکر کے بحران میں جہانگیر ترین کے مبینہ کردار کو اس ایجنسی نے بے نقاب کیا۔ استفسار پر ایک متعلقہ افسر نے بتایا کہ ہمارا کام خفیہ نوعیت کا ہوتا ہے جسے سامنے لانے سے خلاف توقع یا برعکس نتیجہ نکل سکتا ہے۔ بارہا یہ باور کرایا گیا ہے کہ اینسی کے نام کو سامنے نہ لایا جائے۔ جس کا وعدہ تو کیا جاتا ہے لیکن عمل نہیں کیا جاتا۔