اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ مٹی کی مٹھی‘‘ کی مٹھی میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔لہٰذا آپ 2017ءسے 2020ءان کے انتقال تک دیکھ لیجیے‘ یہ آپ کو میڈیا پر بہت کم نظر آئیں گے‘ یہ بہرحال ان کا ذاتی فعل تھا‘ میڈیا میں آنا یا نہ آنا ہر انسان کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے اور کوئی کسی کو مجبور نہیں کر سکتا تاہم ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا ”آپ مجھے کس درجے پر دیکھ رہے ہیں“
میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ”آٹھویں درجے پر‘ آپ صدر اور وزیراعظم سے بھی آگے نکل گئے ہیں“ وہ اچھے انسان تھے‘ شاید اسی لیے ان کی بیماری‘ ان کے انتقال اور آخر میں ان کے جنازے نے چند سوال اٹھا دیے۔اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کے بارے میں کیا خوب فرما دیا تھا ” قسم ہے زمانے کی‘ انسان خسارے میں ہے“ ہم سب بے شک خسارے کے سوداگر ہیں اور آپ نعیم الحق کے خسارے کا اندازہ کیجیے‘ مرحوم نے اپنی پوری زندگی عمران خان کے لیے وقف کر دی‘ یہ بچوں کو چھوڑ کر کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہو گئے‘ سارا دن اپنے کپتان کی خدمت کرتے اور رات گئے تھک ہار کر کرائے کے مکان میں جا گرتے‘ یہ عمران خان کے مفت کے سپاہی تھے لیکن آخر میں کیا ہوا؟ ۔وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی نعیم الحق کا جنازہ تک پڑھنے کے لیے کراچی نہیں گئے‘ کیا کراچی کسی دوسرے ملک یا کسی دوسرے سیارے میں تھا؟ ایک شخص جس نے آپ کو پوری زندگی دے دی تھی‘ آپ اس کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے‘کیوں؟ کیا دنیا میں نعیم الحق کے جنازے سے بھی کوئی چیز اہم تھی؟ چناں چہ یہ ایک حقیقت ساری حقیقتیں آشکار کرنے کے لیے کافی ہے‘ ہم جن کو پوری زندگی دیتے ہیں ضروری نہیں وہ ہمارے جنازے کو پانچ منٹ بھی دیں لہٰذا میری درخواست ہے آپ روز سونے سے پہلے اور جاگنے کے فوراً بعدیہ حقیقت ضرور یاد کر لیں۔دوسرا نعیم الحق نے جس عہدے‘
جس منزل کے لیے پوری زندگی صرف کر دی وہ جب ملی تو وہ اسے انجوائے نہیں کر سکے‘ وہ وزیراعظم آفس سے سیدھے ہسپتال گئے اور پھر وہاں سے سیدھا وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا‘آپ صبح اور شام خود کو یہ بھی یاد کرائیں ہو سکتا ہے ہمیں منزل کی خوشیاں دیکھنا نصیب نہ ہوں‘ تیسری بات ہم زندگی میں جس رتبے‘ جس مقام کی وجہ سے انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے وہ رتبہ‘
وہ مقام جاتے دیر نہیں لگتی‘کل کی بات ہے جنرل پرویز مشرف کا غرور آسمان کو چھو رہا تھا پھر ہم جس طرف دیکھتے تھے صرف شریف ہی شریف تھے لیکن یہ لوگ آج کہاں ہیں؟ ہم پانی کا بلبلہ ہیں۔یہ بلبلہ کس وقت پھٹ جائے ہم نہیں جانتے اور آخری بات ہم پوری دنیا کو ہرا سکتے ہیں‘ ہم دنیا کی بلند ترین چوٹی پر پرچم بھی لہرا سکتے ہیں اور ہم زمین کے دائرے سے نکل کر کائنات کے آخری سرے تک بھی پہنچ سکتے ہیں
لیکن ہمارے جسم کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ ہم نہیں جانتے‘ ہم روز 67 مرتبہ موت کے قریب سے گزرتے ہیں‘ ہم ساڑھے چار ہزار بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں‘ ان میں سے کون سی بیماری کس وقت ایکٹو ہو جائے یا پھر موت کے 67 بہانوں میں سے کون سا بہانہ کس وقت کارگر ہو جائے ہم نہیں جانتے ۔ نعیم الحق اس حقیقت کی تازہ ترین مثال ہیں‘ یہ چلے گئے
لیکن یہ جاتے جاتے اپنے ساتھیوں کو بتا گئے عہدوں اور کام یابیوں پر تکبر نہ کرو‘ دنیا کو مستقل نہ سمجھو‘ خود کو طاقت ور اور ناگزیر خیال نہ کرو اور اپنے دوستوں کو آخری کندھا ضرور دو‘ یہ عادت تمہارے اعتبار میں بھی اضافہ کرے گی اور تمہیں اس دنیا کی اصل حقیقت بھی یاد دلائے گی۔