اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار حسن ثنار اپنے کالم ’’بلاعنوان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔اب تو لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے لیکن کیا کریں ہمارا کام ہی ایسا ہے کہ ذاتی پسند ناپسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان خبروں کو بھی موضوع بنائیں جو قارئین کے علم یا معلومات ہی نہیں، آگہی ادراک میں بھی اضافہ کر سکیں تاکہ انہیں اہم فیصلے کرنے میں آسانی ہو۔ایسی ہی اک خبر ہے جسے بائی پاس کرکے
گزرجانا میرے بس میں نہیں۔یوں تو یہ سپرلیڈہی کافی ہے کہ ’’پنجاب اور سندھ میں 25سیاست دانوں کی 71بے نامی جائیدادوں کا انکشاف ہونے پر FBR نے تحقیقات تیز کر دی ہیں‘‘ لیکن MORE OVER کے طور پر خبر ہمیں یہ خوشخبری بھی سناتی ہے کہ ’’ایک لاکھ25 ہزار کنال سے زائد بے نامی اراضی کا تعلق ’’شرافت کی سیاست سے ‘‘بہت ہی گہرا ہے ‘‘۔ان ہائی پروفائل کیسز پر تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔پنجاب میں بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی مکمل ہو چکی ہے جبکہ سندھ کی انتظامیہ ابھی تک تعاون نہیں کر رہی تو مجھے ذاتی طور پر یقین ہے کہ سندھ کی انتظامیہ بھی بالآخر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تعاون پر آمادہ ہو جائے گی کیونکہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے اور جمہوری حکومتیں تمام تر مجبوری کے باوجود اس طرح کے معاملات میں FBR جیسے اداروں کے ساتھ تعاون پر راضی ہو ہی جائیں گی۔’’ماہرین فن‘‘…’’تجربہ کار ‘‘….’’سیانے‘‘ اور ووٹ کو عزت دینے والوں نے کمال مہارت سے بے نامی اداروں کے نام پر ہزاروں کنال اراضی اور اثاثے رجسٹر کرا رکھے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حکام اسلام آباد زونز میں زیر تفتیش تین کیسز میں تفصیلات کو سامنے نہیں لارہے۔لاہور میں 39اور کراچی میں 24بے نامی اداروں کو 90شوکاز نوٹسز جاری کئے جاچکے ہیں۔پنجاب میں 72ارب 79کروڑ روپے کے 28ہزار 6سو 7کنال پر مشتمل 228بے نامی
جائیدادوں کی مختلف اضلاع بہاولنگر، بہاولپور، چنیوٹ، خوشاب، ملتان، ننکانہ صاحب، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاک پتن، گجرات، حافظ آباد، فیصل آباد اور لاہور وغیرہ میں نشاندہی ہو چکی ہے اور یہ صرف جھلکیاں ہیں یعنی دیگ کے صرف چند دانے۔چند سال پہلے میں مختلف ٹی وی چینلز پر علامتی حوالوں سے یہ بات کیا کرتا تھا کہ حکمرانوں کا بس چلتا تو یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو
’’پاکستان ہائوزنگ سوسائٹی‘‘ ڈیکلیئر کرکے اسے پلاٹوں کی شکل میں بیچ دیتے ۔آج میں بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معذرت طلب کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ میں کیا جھک مارتا رہا …….میں ہمیشہ انہیں انڈر ایسٹیمیٹ کرتا رہا کہ ’’اگر ان کا بس چلتا تو یہ لوگ پاکستان کو ہائوزنگ سوسائٹی بنا کر اس کے پلاٹ بیچ دیتے ۔تب مجھ جیسے کو دن کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ کیس ’’بیچ دیتے ‘‘ سے کہیں آگے
’’بیچ چکے‘‘ کی حدود بھی عبور کر چکا ہے اور فنکاری دیکھیں کہ دینے والے بھی خود، لینے والے بھی خود…. دکاندار بھی آپ خریدار بھی آپ۔یہاں مجھے سرائیکی زبان کا وہ شعر یاد آ رہا ہے؎آپے بوتل آپے شربت آپ بوتل دا کاگ ہنسرکار سبھے کجھ آپ ہنچند عادی خاندانوں کے رحم وکرم پر رینگتے رہنے والے پاکستان کے اصل حالات کی یہ صرف چند جھلکیاں ہیں ورنہ حقیقت یہ کہ پاکستان ہر حوالہ سے
اک ایسے جسم کی مانند ہے جس کے ایک ایک مسام میں سٹین لیس سٹیل کے ’’سٹرا‘‘گاڑنے اور پیوست کرنے کے بعد آدم خور اس کے لذیذ اور صحت مند خون سے لطف اندوز ہوتے رہے لیکن پھر شاید رب کو رحم آ گیا کہ جونکیں خون پی پی کر پھٹنے لگیں۔’’میچ‘‘ تقریباً فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں ‘‘ والی صورتحال ہے۔ ایک طرف بے پناہ دولت ، ’’تجربہ‘‘ تعلقات اور بقا کا سوال ہے
تو دوسری طرف رک رک کے سنبھلتی اور کومے سے نکلتی معیشت، نیک نیت اور اٹل ارادہ ہے۔حاکم بدہن، اب کے گئے تو سمجھ لو آنے والے کئی عشرے اور چند مزید نسلیں نیلام گھر کی زینت بن گئیں اور اگر اس کا کرم جاری رہا …..عوام جیت گئے تو غیروں کو چھوڑیں۔خود پاکستانیوں سے یہ ملک پہچانا نہ جائے گا اور وہ حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھا کریں گے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جہاں کھربوں روپے کی بے نامی جائیدادیں، اقامے، ٹی ٹی کپور اور کمیشن کمار ہوا کرتے تھے؟ وہ جب چاہے جیسے چاہے دنوں کو پھیر سکتا ہے۔