اجُّو نے کہا: میرے بڑے بھائی بات کرنا چاہتے ہیں۔ فون پر دوسری طرف سے آواز آئی: بھائی صاحب میں نجم الثاقب بول رہا ہوں۔سابق وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان اپنے کالم ’’نعیم الحق‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔ آج شام کھانے پر آ جائیں۔ میں نے بر سبیلِ احتیاط پوچھا: کہاں؟ جواب آیا: چاندنی چوک والے گھر پر ہی کچھ دوست بلائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دو تین کامریڈ ڈنر کے وقت پر جا پہنچے۔
اسلام آباد سے مری روڈ پر آتے ہوئے عین چاندنی چوک پہ یہ بائیں جانب تقریباً دس کنال کا بڑا سا گھر تھا‘ جس کے بغل میں ایک وسیع گرائونڈ اور اس کے ساتھ ہی سنٹرل ہسپتال کی دیوار لگتی تھی۔ یہ گرائونڈ جنرل ضیاء کے زمانے میں سرِ عام کوڑے مارنے سے مشہور ہوا تھا۔ باہر گاڑیوں کی قطاریں دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئے لیکن اجُّو کالج کے زمانے کا جونیئر اور دوست تھا اس لیے اندر جانے میں جھجک نہ ہوئی۔ یہ ڈنر نہیں بلکہ پنڈی، اسلام آباد کے چُنیدہ لوگوں کا فوڈ گالا تھا۔ لان میں سلیقے سے لگے ہوئے ڈائننگ ٹیبل اور سامنے سٹیج اور لائوڈ سپیکر جس پر عمران خان بول رہے تھے۔ موضوع تھا‘ شوکت خانم میموریل ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈ ریزنگ۔ تھوڑی دیر بعد کھانا ڈنر ٹیبل پر لگنا شروع ہو گیا۔ یہیں ہنستے مسکراتے نعیم الحق سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ کھانے کے آغاز میں انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے عمران خان والی ٹیبل پر لے جا کر اپنی سیٹ پر بٹھا دیا۔ خود ایک اور کرسی کھینچ لی۔ نعیم الحق کہنے لگے: میں آپ کا وکیل بھائی ہوں۔ ان دنوں کراچی میں ایک ہی’’بھائی‘‘ کا چرچا تھا۔ عمران خان نے مداخلت کی اور کہا ’’تم وکیل کب تھے؟‘‘ نعیم الحق نے کہا: آپ سے ملنے سے پہلے خالد ایم اسحاق کے چیمبر میں رہا اور وکالت میرا پہلا پروفیشن ہے۔ زندگی کا سفر ایسا ہے جس کے راستوں اور پگ ڈنڈیوں پر سارے لوگ ساری عمر چلتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے یقین اور بے یقینی،
امید و بیم، کامرانی اور ناکامی یا دھوپ چھائوں۔۔۔۔زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر۔۔۔۔کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں۔۔۔ہے یہ کیسی ڈگر چلتے ہیں سب مگر۔۔۔۔کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں۔۔۔۔!۔پھر لمبے عرصے بعد سابق وزیر قانون مرحوم حفیظ پیرزادہ صاحب کی صاحبزادی کی شادی کے لیے کراچی جانا ہوا۔ نعیم الحق پھر نظر آ گئے۔ اس دفعہ میں خود اُن کی میز پر چلا گیا۔ بتانے لگے: اب میں پھر سے
سیاست میں لوٹ آیا ہوں۔ پہلے ایئر مارشل اصغر خان صاحب کو جوائن کیا تھا‘ اب تحریک انصاف میں ہوں۔ اس سفر کا ایک سنگ میل سال 2013ء آ گیا۔ ملکی تاریخ کے پہلے سیاسی جج نے عمران خان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا۔ اسی سلسلے میں نعیم الحق کی کال آئی۔ کہنے لگے: خان صاحب آپ سے سیاسی جج والے مقدمے پر مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس مقدمے کا بریف دفاع کی
جانب سے چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا۔ سال 2014ء تک نعیم الحق صاحب سے خاصی بے تکلفی ہو چکی تھی۔ جب بھی بات ہوتی میں انہیں نعیم بھائی کہہ کر بلاتا‘ وہ اُونچا سا قہقہہ لگاتے اور کہتے: یہ کراچی والا بھائی ہے یا دوسرا بھائی۔ میرا جواب ہمیشہ ایک ہی رہا: یہ پوٹھوہاری والا’’پہاپا‘‘ ہے۔ سال 2014ء میں عمران خان نے مجھے پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹیو اور کور کمیٹی کے اجلاسوں میں
مختلف ایشوز پر رائے دینے کے لیے بلانا شروع کر دیا۔ ایسے ہی ایک اجلاس کی تصویر قومی میڈیا پہ بھی دوڑ گئی‘ جس میں عمران خان کی ایک طرف میں اور دوسری جانب نعیم الحق بیٹھے تھے۔ اُسی روز مجھے سابق صدر کا نواب شاہ سے فون آ گیا اور اس طرح ہمارے درمیان عرصے سے جاری مذاکرات کا حتمی دور شروع ہو گیا۔ یہ دور‘ جو لمبی چوڑی نشستوں میں صرف دو ہی نکات کے گرد گھومتا رہا‘
میری جانب سے پنجاب میں مزاحمت کی سیاست پر اصرار جبکہ دوسری طرف سے مختلف حیلے بہانوں میں لپیٹ کر مسلسل جاری رہا۔ اس سلسلے کی آخری نشست سال 2017ء کے رمضان المبارک کی 26ویں شب کو برپا ہوئی۔ سابق صدر پشاور کے دورے سے بیمار ہو کر اسلام آباد واپس پہنچے تھے۔ رات پونے دس بجے اس میٹنگ کا آغاز بی بی شہید کے رہائشی یونٹ میں ہوا جس کا اختتام 27 رمضان المبارک طلوعِ فجر کے
بعد ہی ہو سکا۔ اگر رؤف کلاسرا صاحب جیسا خوبصورت لکھنے والا ہو تو یہ نشست سیاسی کتابچہ بن سکتی ہے۔ نیم شب کے اس ڈائیلاگ سے فارغ ہوتے ہی میں نے نعیم الحق کو کال ملائی، پھر عمران خان سے بات ہوئی۔ میں نے دونوں کو اپنے گھر پر اُسی شام افطاری کی دعوت دے دی۔ دونوں حضرات اس سے پہلے بھی کیمرہ سپاٹ کے بغیر اسی تسلسل میں میرے ہاں آ رہے تھے۔ سال 2014ء سے
سال2018ء تک ہمارے لیے شدید ترین مزاحمت کا دور تھا۔ کئی ایک پر نہیں بلکہ سارے محاذوں پر عدالتی کارروائیاں، نااہلی کے مقدمے، توہینِ عدالت کی درخواستیں، جلسے، میڈیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک تیسری قوت کی جانب سے دو طاقتور گروہوں سے اقتدار چھین لینے کی آرزو جو اس سے پہلے شوکت اسلام، ایم ڈی ایم سمیت قوم پرست، مذہب پرست، ترقی پسند اور سابق آرمی چیف‘
ریٹائرڈ ججز اور بڑے بڑے دانش مندوں کی شکستہ آرزو رہی تھی؛ چنانچہ اس فیصلہ کن مرحلے میں نعیم الحق دو طرح سے سب سے بڑی سپورٹ ثابت ہوئے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے پرانے آزمودہ کار ورکرز جبکہ دوسری جانب ان ورکرز کے کپتان عمران خان۔ جب کبھی نئے زورآور اور پرانے ٹائیگر کی لڑائی ہوئی‘ نعیم الحق ڈٹ جانے والے نہیں بلکہ لڑ جانے والے کامریڈ ثابت ہوئے۔ موجودہ طرزِ سیاست میں
سیاسی لوگوں کے درمیان ایسا کردار ادا کرنا راج نیتی کی دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ آپ جن کے لیے لڑتے ہیں اُن میں آپ کے لیے لڑنے کی سکت نہیں ہوتی۔ جن سے آپ ’’ٹاکرا‘‘ جا لیتے ہیں وہ زندگی بھر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ وہ بھی آپ پر Red Reflector کا نشان لگا کر درست نشانہ لے کر۔ اگلے روز مجھے یو کے سے انیل مسرت چوہدری کا آنسوئوں سے بھرا پیغام ملا۔
چند ہفتے پہلے انیل مسرت پاکستان آئے تھے۔ اپنے آنے کی اطلاع دی اور ساتھ تصویر بھیجی‘ جس میں نعیم الحق صاحب انیل کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ریسیو کرتے نظر آئے۔ میں تصویر میں اُن کی ہمت اور حوصلے کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ نعیم الحق نے مجھے خود بتایا تھا کہ کئی ہفتوں سے نہ تو وہ کچھ کھا سکتے ہیں اور نہ کچھ پی سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ دوست پرستی نہ چھوڑ سکے۔
نعیم الحق کو کسی کی لمبی گاڑیوں یا مال سے کبھی کوئی سروکار نہ رہا۔ اُن کی سالوں پرانی نیم شکستہ کالی کار ہر دور میں اُن کی واحد سواری رہی جسے چلانے کا اعزاز نعیم الحق نے کبھی کسی ڈرائیور کو نہ بخشا۔ اُن کی بیماری کے آخری مرحلے میں پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری عامر کیانی کو ساتھ لے کر میں اُن کے گھر گیا‘ جہاں سے نعیم الحق کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور اُن کے
ایک پسندیدہ ریسٹورنٹ چلے گئے۔ بلیو ایریا کے ریسٹورنٹ میں نعیم الحق نے سب کے لیے اپنی پسند کا برگر آرڈر کیا‘ جس کے چند دن بعد ہی وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کراچی شفٹ ہو گئے۔ اجُّو آج کل کسی مغربی ملک میں سفیر ہے۔ نجم الثاقب وفاقی سیکرٹری بن کر ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ وقت کا پہیہ ہمیشہ کی طرح چلتا رہے گا۔ ہاں البتہ کچھ لوگ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی بھلائے نہیں جا سکتے۔ برادرم نعیم الحق مرحوم انہیں میں سے ایک تھے۔ اسلام آباد میں ان کا قیام 7/8 سال رہا۔ سچ یہ ہے کہ اتنے تھوڑے عرصے میں اس قدر چاہنے والے نعیم الحق کا مقدر تھا یا مُدعا۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔