اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگا ر جاوید چودھری پانے کالم ’’ہم چین سے یہ ہی سیکھ لیں‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔زمین نے کروٹ لی‘ برفیں پگھل گئیں اور زمین سات براعظموں میں تقسیم ہو گئی‘ انسان بھی سات حصوں میں منقسم ہو گئے اور ان کے درمیان رابطے منقطع ہو گئے تاہم خوراک کی فراوانی ہو گئی‘ انسان کا خیال تھا یہ اب زیادہ محفوظ ہے‘یہ زیادہ عرصہ زندہ بھی رہ سکے گا
اور اسے خوراک کی کمی بھی نہیں ہو گی لیکن برفوں کے بعد ایک نئی صورت حال سامنے آئی اور انسان دھڑا دھڑ مرنے لگے‘ انسان نے تحقیق کی ‘ پتا چلا‘ یہ جنسی اختلاط کے بعد بیمار ہوتا ہے اور چند ماہ میں چل بستا ہے‘ یہ بھی معلوم ہوا مختلف انسان مختلف بیماریاں کیری کر تے ہیں اور یہ بیماریاں جنسی عمل کے دوران ایک سے دوسرے جسم میں منتقل ہو جاتی ہیں‘ دنیا میں اس انکشاف سے پہلے شادی کا تصور نہیں تھا‘ انسان جانوروں جیسی جنسی زندگی گزارتا تھا‘بیماریاں اور موت کا خوف اسے ”ایک عورت ایک مرد“ تک لے گیا‘ شادیاں شروع ہوئیں اور دنیا میں متعدی امراض کم ہو گئے‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا کے زیادہ تر امراض بیکٹیریا اور وائرس کی وجہ سے پھیلتے ہیں‘ اینٹی بائیوٹک ادویات بیکٹیریا کو ہلاک کر دیتی ہیں جب کہ وائرس پر اینٹی بائیوٹک کا اثر نہیں ہوتا‘ نزلہ‘ ڈائریا اور ایڈز وائرل ہیں جب کہ باقی امراض بیکٹیریا کی وجہ سے جنم لیتے ہیں‘وائرس کا انسان کی قوت مدافعت کے علاوہ کوئی علاج نہیں‘ وائرس ہلاک ہوتے ہیں یا پھر انسان مرتے ہیں۔بہرحال قصہ مختصر انسان نے شادی کے انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے زیادہ تر بیماریوں پر قابو پا لیا لیکن جب کولمبس امریکا پہنچا تو یہ بیماریاں واپس آ گئیں‘ کیوں؟ کیوں کہ امریکامیں شادی کا تصور نہیں تھا اور ریڈ انڈینز چلتے پھرتے بیماریوں کے ایٹم بم تھے‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی دریافت کے بعد یہی ہوا‘
انسان ایک بار پھر مرنے لگے‘کولمبس امریکا سے انفلوئنزا لے کر آیا‘ سپین میں انفلوئنزا پھیلا اور یہ یورپ میں پانچ کروڑ جانیں لے گیا‘ انسان نے اس کے بعد وائرس اور بیکٹیریا پر کام شروع کر دیا۔لیبارٹریاں بنیں‘ ریسرچ شروع ہوئی اور ویکسین بننا شروع ہو گئی‘ بیسویں صدی میڈیکل سائنس کی صدی تھی‘ انسان نے اس صدی میں ویکسین کے ذریعے بنیادی بیماریاں کنٹرول کر لیں اور ہم پولیو سے لے کرٹی بی‘
کالی کھانسی‘ خناق‘ تشنج اورخسرہ جیسی بیماریوں تک سے محفوظ ہو گئے‘ ہم نے اطمینان کا سانس لیا لیکن قدرت ہمیں ”معاف“ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی‘ اس نے دنیا میں نئے نئے وائرس متعارف کرانا شروع کر دیے‘ دنیا کے زیادہ تر وائرس جانوروں اور حشرات الارض میں پائے جاتے ہیں اور یہ کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر کے انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں چناں چہ انسان مسلسل بیمار ہوتا چلا جا رہا ہے
اور نوول کرونا وائرس اس کی تازہ ترین مثال ہے۔میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کرونا وائرس نیا نہیں یہ بہت پرانا ہے‘ یہ نوک دار رنگز جیسا ہوتا ہے‘ یہ مویشیوں‘ پالتو جانوروں اور چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے اور یورپ اور ایشیا کا ہر شخص زندگی میں کم از کم ایک بار اس کا شکار ضرور ہوتا ہے‘ کرونا وائرس کی وجہ سے ہمیں ڈائریا اور سانس کی تکلیف ہوتی ہے‘ ہمارا گلا دکھتا ہے اور ہمیں خارش ہوتی ہے
لیکن ہماری قوت مدافعت بہت جلد اسے پچھاڑ دیتی ہے تاہم چین سے پھیلنے والا کرونا وائرس نیا ہے لہٰذا یہ نوول کرونا کہلا رہا ہے۔یہ پرانے کرونا سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے‘ یہ انسانی خلیے کی دیوار پھاڑ کر اندر داخل ہوتا ہے اور چند دنوں میں پورے جسم میں پھیل جاتا ہے‘ نوول کرونا چین کے قدیم شہر ووہان سے شروع ہوا‘ یہ ساڑھے تین ہزار سال پرانا شہر ہے اور یہ چین کا ”ٹرانسپورٹ حب“ کہلاتا ہے‘
پورے چین کے لیے بسیں‘ ٹرینیں اور جہاز ووہان سے چلتے ہیں‘ ووہان میں 50 سے زائدیونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی ہیں‘ دسمبر 2019ءمیں ووہان شہرمیں کرونا وائرس کا پہلا کیس رجسٹر ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں ہزاروں کیس سامنے آ گئے یوں پوری دنیا پریشان ہو گئی۔نوول کرونا وائرس اس وقت تک 27 ملکوں میں پھیل چکا ہے‘427لوگ ہلاک ہوچکے ہیں
جب کہ 20 ہزار سے زائد افراد کا علاج جاری ہے‘ 24623افراد میں نوول کرونا کے اثرات ظاہر ہو چکے ہیں‘ آپ وبا کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے چین کے 14 معاشی حب میں کاروبار بند ہے جس سے چین کی معیشت کو 60 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے‘ سٹاک ایکسچینج کریش کر چکی ہے‘ دنیا کی دس ائیرلائینز نے چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں‘ تجارتی سامان کے کنٹینرز اور بحری جہاز تک روک دیے گئے ہیں اور آئی فون‘ ڈزنی اور ٹیسلاجیسی کمپنیوں نے بھی چین میں اپنے دفاتر بند کردیے ہیں‘ معاشی ماہرین کے مطابق یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو چین کی معیشت بری طرح تباہ ہو جائے گی۔