اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیس میں بدنیتی عیاں تھی کیوں کہ سابق چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کا فائدہ اس وقت کے صدر کو ہونا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ میں کچھ دستاویزات دینا چاہتا ہوں، جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ دستاویزات کس نوعیت کی ہیں؟رشید اے رضوی نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چند فیصلے پیش کرنا چاہتا ہوں، ججز کے خلاف صرف صدر اور سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کر سکتے ہیں، صدر اور کونسل کے علاوہ کوئی بھی انکوائری کرے تو غیر قانونی ہوگی۔رشید اے رضوی نے کہا کہ غیر قانونی طریقے سے حاصل کردہ دستاویزات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اعلی عدلیہ اس نقطے پر کسٹمز اور اِنکم ٹیکس مقدمات میں اصول وضع کر چکی ہے۔رشید اے رضوی نے کہا کہ اثاثہ جات برآمدگی یونٹ غیرقانونی باڈی ہے اور غیرقانونی طریقے سے جمع شدہ مواد پر آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی جبکہ اثاثہ جات برآمدگی یونٹ ازخود اختیار حاصل نہیں کر سکتا۔رشید اے رضوی نے کہا کہ یہی صورتحال رہی تو کل ایس ایچ او بھی ججز کے خلاف کارروائی شروع کر دے گا، صدر اور وزیراعظم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔دوران سماعت ملک میں حالیہ آٹے کا بحران بھی موضوع گفتگو بنا، جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ صدر اور جوڈیشل کونسل جج کے خلاف میڈیا کی خبر پر ایکشن لے سکتے ہیں؟جس پر رشید اے رضوی نے جواب دیا کہ اوّل تو صدر صاحب اخبار پڑھتے ہی نہیں ہیں،
چند روز قبل کسی نے صدر سے گندم بحران کا سوال کیا تھا جس پر صدر نے گندم بحران سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ عدالت نے ایسے اصول وضع کر دئیے تو کوئی نہیں بچے گا، سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی تبدیلی آئی ہے، گزشتہ 2 سے 3 سال میں جو کونسل میں ہوا، امید ہے اب نہیں ہوگا۔جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں آنے والی تبدیلی کو چھوڑ دیں، اب جسٹس عمر عطاء بندیال کونسل کا حصہ بن چکے ہیں۔رشید اے رضوی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے آرڈیننس فیکٹری لگا رکھی ہے کیا ایسے شخص سے ضمیر کے مطابق فیصلے کی امید لگائی جا سکتی ہے؟ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے ریفرنس پر اپنے جوڈیشل ذہن سے کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ وزیراعظم کی سفارش پر ریفرنس جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا۔
جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدر نے صرف ذہن اپلائی کرنا ہوتا ہے جوڈیشل مائنڈ نہیں جس پر رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ صدر نے نان جوڈیشل مائنڈ بھی اپلائی نہیں کیا۔رشید اے رضوی نے کہا کہ ریفرنس میں جج کے نام کے ساتھ معزز بھی نہیں لکھا گیا، صدر نے ریفرنس پر دستخط کرکے حلف کی خلاف ورزی کی۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے دریافت کیا کہ جج کے خلاف شکایت حکومت نے صدر کو بھجوائی تھی، کیا صدر ایڈوائس سے ہٹ کر اختیار استعمال کر سکتے ہیں؟رشید اے رضوی نے کہا کہ وزیراعظم کی ایڈوائس بدنیتی پر مبنی تھی، صدر کو ریفرنس کی ایڈوائس پر آزادانہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل آزاد ادارہ ہے، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس میں بدنیتی عیاں تھی کیوں کہ سابق چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کا فائدہ اس وقت کے صدر کو ہونا تھا۔بعدازاں سپریم جوڈیشل کونسل کی درخواست کے خلاف سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔