اسلام آباد (این این آئی)امریکی نائب سیکرٹری براے جنوبی ایشیاء و وسطی ایشیاء ایلس ویلز کی سی پیک کے خلاف ہرزہ سرائی/چینی سفارت خانے نے کہا ہے کہ ایلس ویلز کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ نومبر 2019 والی تقریر کا تکرار ہے۔ ترجمان چینی سفارتخانے کہاکہ 21 جنوری کو پاکستان کے دورے پر آنے والی امریکی نائب سیکریٹری برائے جنوبی ایشیاء و وسطی
ایشیاء ایلس ویلز نے ایک مرتبہ پھر سی پیک کے حوالے سے منفی ردعمل دیا۔ ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ ایلس ویلز کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ نومبر 2019 والی تقریر کا تکرار ہے۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ اس پرانی تکرار کو پاکستان اور چین دونوں مسترد کر چکے ہیں،امریکہ ابھی تک اس ضمن میں حقائق سے چشم براء ہے اور سی پیک پر اپنی بنائی ہوئی کہانی پر قائم ہے۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ ہمیں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر خوشی ہے۔ ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ تاہم ہم سختی سے پاک چین تعلقات اور پاک چین اقتصادی راہداری میں امریکی مداخلت کی سختی سے بھرہور مخالفت کرتے ہیں۔ ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ ایسا شخص جو سونے کی اداکاری کر رہا ہوں کو جگانا ناممکن ہے،ہم واضح طور پر اپنا موقف ظاہر کرتے ہیں اور امریکہ کے منفی پروپیگنڈیکو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک کے منصوبوں میں پاکستان اور چین باہمی مشاورت اور مشترکہ مفاد کے لیے باہمی تعاون کے لیے پرعزم ہیں,ہم پاکستانی عوام کے مفادات کو سب سے پہلے رکھتے ہیں۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ گذشتہ پانچ برس میں 32 منصوبوں کی قبل از وقت تکمیل سے پھل حاصل ہوئے۔ انہوںنے کہاکہ ان منصوبوں کی تکمیل سے مقامی ذرائع آمد و رفت میں بہتری آئی اور روزگار کے 75 ہزار مواقع پیدا ہوئے،
اس سے پاکستان کی معیثت جی ڈی پی میں 2 فیصد اضافہ ہوا۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ سی پیک پاکستان کی سوشیو اکنامک ڈیویلپمنٹ اور اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے،سی پیک کام کر رہا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب پاکستانی عوام کو دینا ہے نہ کہ امریکہ نے۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ سی پیک کے تحت کسی بھی منصوبے کی منصوبہ بندی
اور عملدرآمد تک پاکستان اور چین ہر منصوبے پر مشاورت, تفصیلی مطالعہ اور مشترکہ عملدرآمد کرتے ہیں،چینی حکومت چینی کمپنیوں سے ہمیشہ مقامی قوانین کے تحت کام کرنے کی درخواست کرتی ہے۔چینی سفارت خانہ نے کہاکہ سی پیک میں شامل ہونے والی تمام کمپنیاں بین الاقوامی تشخص رکھتی ہیں۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ تمام چینی کمپنیاں سختی سے منڈیوں کے مطابق
بین الاقوامی سطح پر قابل قبول بزنس ماڈل کے تحت کام کرتی ہیں۔چینی سفارت خانہ نے کہاکہ یہ کمپنیاں اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں کی سختی سے پابندی کرتی ہیں۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ یہ تمام طریقہ کار کھلا, شفاف اور بین الاقوامی قوائد و ضوابط کے تحت ہوتا ہے۔چینی سفارت خانہ نے کہاکہ ہم پاکستان کی متعلقہ احتسابی اداروں سے رابطے میں رہتے ہیں
اور اس بات ہر اتفاق رائے ہے کہ سی پیک صاف ہے۔ترجمان چینی سفارت خانہ کے مطابق امریکہ دنیا بھر میں پابندیوں کی چھڑی لے کر گھومتا ہے اور ممالک کو بلیک لسٹ کرتا رہتا ہے،تاہم یہ امریکی عمل عالمی معیثت کے لیے نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہوتا ہے۔چینی سفارت خانہ نے کہاکہ پاکستانی اسٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 110 ارب امریکی ڈالرز ہے،
عالمی مالیاتی فنڈ اور یرس کلب سمیت عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرضہ دینے والوں میں سر فہرست ہیں۔ ترجمان نے کہاکہ سی پیک کے لیے کل قرضہ 5.8 ارب امریکی ڈالرز ہے جو کہ پاکستان کے کل بیرونی قرضہ جات کا 5.3 فیصد ہے۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ یہ چینی قرضہ 20 سے 25 برس کے دورانیہ میں فیصد شرح سود کے دوبارہ ادائیگیوں کے آپشن رکھتا ہے۔
ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ چینی قرضہ جات کی ری پیمنٹس 2021 میں شروع ہو گی،300 ملین امریکی ڈالرز کی سالانہ ری پیمنٹس کے لئے بوجھ ثابت نہیں ہوں گی۔ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ چینی کے کسی ملک کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے جبری طور پر مجبور نہیں کیا،چین ہاکستان سے بھی غیر معقول مطالبات نہیں کرے گا۔ ترجمان چینی سفارت خانہ نے کہاکہ امریکہ مسلسل خودساختہ قرضہ جات کی کہانی میں مبالغہ آرائی کر رہا ہے،امریکہ کا حساب کتاب کمزور اور ارداے بدترین ہیں۔