آج لاہور ہائی کورٹ نے ملک کے نام ور بیورو کریٹ فواد حسن فواد کو ضمانت پر رہا کر دیا‘ یہ ڈیڑھ سال آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں نیب کی حراست میں رہے‘ آج عدالت نے نیب کے وکیل سے پوچھا ،نیب نے تفتیش کے وقت اربوں روپے کی جائیداد کا الزام لگایا تھا لیکن ریفرنس صرف 108 ملین روپے کا بنا‘ کیوں؟ عدالت نے پوچھا ، جائیداد فواد حسن فواد اور ان کی اہلیہ کے نام ہے لیکن
نیب نے گرفتار فواد حسن فواد کو کر لیا‘کیوں؟ نیب کے وکیل تسلی بخش جواب نہ دے سکے چناں چہ عدالت نے فواد حسن فواد کو ضمانت پر رہا کر دیا‘ فواد حسن فواد ذہین‘ (پختہ) اور ملک کے نام ور بیورو کریٹ ہیں‘ یہ ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہے‘ یہ اڑھائی سال وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے‘ ۔۔ان کی گرفتاری نے پوری بیورو کریسی کا مورال ڈائون کر دیا تھا لیکن نیب ڈیڑھ سال کی تفتیش کے باوجود ۔۔ان پر الزام ثابت نہیں کر سکا یوں یہ کیس نیب کی کارکردگی پر ایک کلاسیک سوالیہ نشان بن گیا‘ فواد حسن فواد جیل سے باہر آ گئے لیکن یہ اب باقی زندگی اپنے (اس) ڈیڑھ سال کا حساب مانگتے رہیں گے جو ۔۔انہوں نے ناحق جیل میں گزار دیا‘ کیا یہ انصاف ہے؟ آج شاہد خاقان عباسی اور بلاول بھٹو نے حکومت کے بارے میں کہا کیا حکومت کو واقعی شرمندہ ہونا چاہیے اور حکومت نے کوئی وعدہ پور نہیں کیا؟ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی ایز نے اپنا پریشر گروپ یا فارورڈ بلاک بنا لیا‘ کیا یہ پارٹی کے اندر بغاوت ہے؟۔