کراچی (این این آئی)سندھ کے وزیر اطلاعات و محنت سعید غنی نے کہا ہے کہ میری اور میرے بھائی کی کردار کشی شروع کردی گئی ہے۔دو سال پرانی ایک اخباری رپورٹ جس میں میرا نام تک نہیں اس کے ساتھ مجھے جوڑا گیا کیوں کہ میں پولیس کے مشکوک کردار پر بات کررہا ہوں۔سندھ پولیس کا مزاج نیب کی طرح ہوگیا ہے، جو آپ کے خلاف بولے اس کے خلاف کارروائی کرو، پولیس حکام کو بتایا کہ ان کے علاقے میں منشیات کا کام بڑھ رہا ہے اور پولیس نہیں روک رہی۔
وزیراعلی سے کہوں گا کہ میرے خلاف رپورٹ کی ویری فکیشن کرائیں، اگر الزامات درست ہیں تو سخت سے سخت سزا بھگتوں گا، عہدہ اور سیاست بھی چھوڑدوں گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو اپنے کیمپ آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر رضوان نامی پولیس آفیسر نے 2017 میں میرے حلقے کے حوالے سے ایک مشکوک رپورٹ بنائی، یہ پولیس آفیسر 2017 میں میرے علاقے میں منشیات فروشوں کی حمایت کر رہے تھے اور کراچی ہی کے ایک سابق ایم کیو ایم کارکن فیصل لودھی جس کو پی پی پی میں شامل ہونے کی پاداش میں مبینہ طور پر اسی پولیس آفسر نے ماروائے عدالت قتل کروایا تھا۔ اس قتل کی اس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ نے تحقیقات بھی کروائی۔ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے اس پولیس آفیسر کے مشکوک کردار پر اسکے افسران سے بات کی جو اس کو ناگوار گزری اور انہوں نے میرے پورے حلقے کے خلاف ایک رپورٹ بنا دی اور میری حالیہ پریس کانفرنس کے بعد اس جھوٹی رپورٹ کو میڈیا میں چلوایا جارہا ہے تاکہ میرے کردار کشی کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈرنے والے نہیں اگر ڈرتے تو میں ان کے خلاف نہیں بولتا، میری ذات پر لگنے والے الزامات پر لازم بنتا ہے کہ اس الزام کی وضاحت کروں۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں جھوٹے کو اس کے گھر تک چھوڑ کر آؤوں گا۔انہوں نے کہا کہ میں نے پولیس حکام کو بتایا کہ میرے علاقے میں منشیات کا کام بڑھ رہا ہے اور پولیس نہیں روک رہی،
اس کے بعد میرے علاقے میں منشیات کا کام بڑھ گیا اور پولیس کی طرف سے یہ طریقہ اپنایا گیا کہ دو منشیات فروش اور 20 بے گناہ لوگوں کو اٹھاو۔انہوں نے کہا کہ کرائم بڑھ رہے تھے اور میری ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی سے ملاقات نہیں ہورہی تھی، جبکہ رضوان صاحب کو یہ شکایت تھی کہ میں نے ڈی آئی جی کو شکایت کیوں کی؟صوبائی وزیر نے کہا کہ دانستہ طور پر ہمیں گھسیٹا گیا، اس لیے کہ میں نے جرائم کے خلاف آواز اٹھائی۔سعید غنی نے کہا کہ میں وزیراعلی سے کہوں گا کہ میرے خلاف رپورٹ کی ویریفکیشن کرائیں، اگر الزامات درست ہیں تو سخت سے سخت سزا بھگتوں گا، عہدہ چھوڑوں گا اور سیاست بھی چھوڑدوں گا۔انہوں نے کہا کہ میرے اثاثوں کی بھی تحقیقات کریں اور اس کے اثاثوں کی بھی تحقیقات کریں،
جبکہ اس نے الیکشن کے دوران میری سپورٹ کرنے والے بندے بھی اٹھوائے۔انہوں نے کہا کہ پولیس محکمے کے افسران جس انداز سے کام کررہے ہیں ان کو اس طرح کام نہیں کرنا چاہیے اس وقت پولیس افسران اخباروں میں خبریں چلارہے ہیں، پولیس افسران وکلا سے ملنے اپوزیشن رہنماوں کے ساتھ جا رہے ہیں، پولیس سیاسی جماعت بنی ہوئی ہے،ان رویوں سے نہ نوکریاں ہوسکتی ہیں نہ ان کا کیریئر بن سکتا ہے، دو چار افسران کا گروپ ہے جو اس طرح کے کام کرتا ہے۔پنجاب میں کہا جاتا ہے بہترین افسر لگایا ہے جو تین چار ماہ میں نکال دیا جاتا ہے، مگر سندھ اگر کسی نااہل آفیسر کو نکالنا چاہے تو سوتیلی ماں والا سلوک دیکھنے کو ملتا ہے۔، ایم کیو ایم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ سندھ کی تقسیم کا خواب دیکھنے والے خود تقسیم ہوجائیں گے۔ سندھ کے لوگوں کو لڑانے اور تقسیم کرنے کی سیاست کی پرزور مذمت کرتے ہیں، سندھ ایک تھا ایک رہیگا۔