کراچی (این این آئی) عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی کو عوام کے ساتھ دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو سامری جادوگر کی چھڑی سے چلایا جارہا ہے۔ ابھی کراچی میں ایک حادثہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ گاڑی میں شارٹ سرکٹ ہوگیا اور پھر ڈگی میں پیٹرول کی بوتل بھی رکھی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ساری ترقی یافتہ دنیا میں جتنی بھی سواریاں روڈ پر ہوتی ہیں
ان کا ہر سال انسپکشن ہوتا ہے۔ اور ہر سال ان سے گاڑیوں کا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک تو لوکل گورنمنٹ کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسری طرف اس قسم کے حادثات تقریباً ہوتے ہی نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں تو بابائے آدم ہی نرالہ ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ فرماتے ہیں کہ میں نے صوبے کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو حکم جاری کردیا ہے کہ اس سردی میں جو غیر قانونی طریقے سے غریب غربا نے مجبوراً تعمیرات کی ہوئی ہیں ان کی رہائشی جھونپڑیوں پر بْلڈوزر نہ چلائے جائیں۔ اب جہاں تک سپریم کورٹ کا تعلق ہے تو انہوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ سڑک کنارے یا فٹ پاتھ یا ندی نالوں کے کناروں پر جو جھونپڑیاں قائم ہیں وہ ختم کی جائیں۔ اس ضمن میں بھی حکومت سندھ کی ذمہ داری تھی کہ وہ متبادل جگہ فراہم کرتی۔ لیکن اس طرف تو کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ کراچی سے وصول ہونے والا سارا سیلز ٹیکس حکومت سندھ کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ عوام کو کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں دی جاتی۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نیا پاکستان اسکیم کیلئے تقریباً 19 لاکھ 80 لاکھ درخواستیں وفاقی حکومت کو بھیجی گئی ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 2 لاکھ درخواستیں اْن لوگوں کی ہیں جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ وفاق میں بھی صورتحال یہ ہے کہ کم از کم 50 ہزار گھر بناکر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن ابھی ایک گھر کی بھی بنیاد نہیں رکھی گئی۔ ایک اینٹ تک نہیں رکھی گئی۔
اسی طرح ایک کروڑ ملازمتوں کی بات ہوئی تھی۔ یہاں تو ایک کروڑ سے زیادہ لوگ اتنے عرصے میں بے روزگار ہوگئے ہوں گے کہ جیسے کاروبار اور انڈسٹری کا پہیہ جام ہوا ہے۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ حکومتیں خواہ صوبائی ہوں یا مرکزی، یہ تمام عوام دشمنی پر تْلی ہوئی ہیں۔ پنجاب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں کے اضلاع اور تحصیلوں میں عملاً حکومت ہے ہی نہیں۔ اب پنجاب جیسا صوبہ جس کی
آبادی ملک کی نصف آبادی سے زیادہ ہے اور وہاں تعلیم کا معیار بھی نسبتاً بہتر ہے۔ وہاں لوگوں کے پاس وسائل بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ وہاں یہ حال ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان حکومتوں کا مینڈیٹ ہی یہی ہے کہ کسی طریقے سے پاکستانی قوم کو رگڑ دو۔ اس کو مسل کرکے ختم کر دو۔ انہوں نے زور دیا کہ ان معاملات کا ادراک ہونا چاہیئے۔ باتیں تو ہم ووٹ کو عزت دینے کی کرتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ووٹ تو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد غائب ہوجاتے ہیں۔ کوئی لندن بھاگ جاتا ہے۔ کوئی نیویارک بھاگ جاتا ہے۔ کوئی اسی ملک میں عیاشی کر رہا ہوتا ہے۔ ان تمام معاملات کا ہمارے ووٹرز کو ادراک ہونا چاہیئے۔ اور خصوصاً اب جبکہ بلدیاتی انتخابات آنے والے ہیں۔ بہت سے مسائل بلدیات اور کونسل کی سطح پر حل ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔