مولانا فضل الرحمان نے دوبارہ سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیا، نئی تحریک کا آغاز کہاں سے کریں گے؟ دھماکہ خیز اعلان کر دیا گیا

11  جنوری‬‮  2020

لاہور(این این آئی) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے کہا ہے کہ 20 جولائی 2018 کے بعد سیاستدانوں نے جو متفقہ بیانیہ دیا ہمارا وہی بیانیہ چل رہا ہے اور ہم آنے والے چند مہینوں میں پھر سے سڑکوں پر آنا چاہتے ہیں،نئی تحریک کا آغاز پنجاب سے کریں گے،ان ہاؤس تبدیلی اور قبل از وقت انتخابات دونوں دیکھ رہا ہوں،اپوزیشن کی وحدت سے حکومت کمزور ہوتی ہے اور اگر اپوزیشن بکھر جائے تو حکومت کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی سرکاری آفیسر کی تقرری کو سیاسی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے لیکن حکومت نے خود توسیع کے مسئلہ کوعدلیہ میں گھسیٹا۔ خود عدالت میں سمریاں بھیج کر اس معاملے کو پیچیدہ بنایا گیا اور ادارے کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قانون سازی میں حصہ نہ لے کر ناجائز اسمبلی اور نااہل ہونے کے حوالے سے اپنے بیانیہ کو ترویج دی۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف اورشہبازشریف سے فون پر بات کی،پیپلزپارٹی سے بھی بات ہوئی،پیپلزپارٹی نے ترامیم کی بات کی لیکن پھر وہ بھی واپس لے لیں اگر ووٹ دینا تھا تو پھرمندرجات کو سامنے رکھتے۔انہوں نے کہا کہ (ق)لیگ کی قیادت کے ساتھ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دینی مدارس کو ہر صورت آزاد رکھا جائے گا، دنیا نے مذہبی مدارس کا منفی تاثر دیا ہوا ہے، دینی مدارس ہمارے ملک کی جڑیں ہیں اور وہ کمزور جڑیں نہیں ہے، ہمیں اپنے تعلیمی نصاب پر اطمینان ہے،مدارس کے نظام کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہم مدارس کی آزادی کے حوالہ سے ایک مربوت نظام بنانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اتحاد تنظیمات دینیہ کے رہنماؤں سے ملاقات ہوئی،اب تک حکومت کے ساتھ مدارس کے متعلق مذاکرات ہوئے ہیں مدارس پر کچھ معاہدات بھی ہوئے اس پر مشاورت کی گئی اس بات پر اتفاق ہے مدارس کی آزادی کو برقرار رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران کبھی کہتے دینی مدارس کی اصلاحات کر رہے ہیں اور کبھی کہتے ہیں قومی دھارے میں لا رہے ہیں،یہ باتیں منفی رحجان پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے مطابق قوم وقت اس پوزیشن میں ہے اسے قبر میں اتار دیا گیا ہے،

یہ ملک کو کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں،حکمرانوں سے جان چھڑانا قومی فریضہ بن چکا ہے،نااہل حکمران کیوں قوم پر حکومت کریں،آزادی مارچ میں عوام کا فیصلہ سامنے آ گیا تھا،دس لاکھ افراد مارچ میں شریک ہوئے تو کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ناجائز حکمرانوں کا سفینہ ڈبونے نکلے تھے لیکن اپوزیشن والے خود اپنا ہی سفینہ لے ڈوبے،رابطے میں ہوں نئی تحریک کا آغاز پنجاب سے کریں گے،ان ہاؤس تبدیلی اور قبل از وقت انتخابات دونوں دیکھ رہا ہوں۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…