اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ’’قومی مفاد ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔ہم کان کو کسی بھی طرف سے پکڑیں مگر ہمیں ماننا پڑے گا پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف تینوں کا موقف ماضی میں ایک تھا‘ آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کار بھٹو صاحب نے وضع کیا تھا‘ میاں نواز شریف اپنے پورے سیاسی کیریئر کے دوران آرمی چیف کے
ایشو پر لڑتے رہے جب کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایکسٹینشن پر عمران خان کا موقف پوری دنیا نے سنا‘ یہ اس ایکسٹینشن کو ادارے کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔تاریخ میں صرف آصف علی زرداری واحد لیڈر تھے جو یہ ایکسٹینشن دینے کے حامی بھی تھے اور جو ببانگ دہل یہ بھی کہتے تھے آپ اگر پاکستان میں حکومت کرنا چاہتے ہیں تو پھر کبھی اللہ‘ امریکا اور آرمی سے نہ بگاڑیں تاہم پارٹی کی رائے ہمیشہ ان سے مختلف رہی لیکن قوم نے جب 7 جنوری کو پاکستان پیپلز پارٹی‘ ن لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ایشو پر ایک پیج پر دیکھا تویہ حیران رہ گئی اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگی ہماری سیاسی قیادت نے اگر یہ ہی کرنا تھا تو پھر اتنی بھاگ دوڑ کی کیا ضرورت تھی؟یہ ماضی ہی میں اس حقیقت کو حقیقت مان لیتے تو آج کا پاکستان مختلف ہوتا‘ ہم ترقی کر چکے ہوتے‘ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو بھی حقائق کا بروقت ادراک کر لینا چاہیے تھا اور پیچھے رہ گئے عمران خان تو انہیں بھی 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف کے انقلاب کے بعد سچ کو سچ تسلیم کر لینا چاہیے تھا‘ یہ بھی بھاگ دوڑ اور یوٹرن سے بچ جاتے اور آج ملک بھی مختلف ہوتا۔میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کو پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ سمجھتا ہوں‘ اس فیصلے نے پوری سیاسی قیادت کے منہ سے نقاب اتار دیا۔