اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ’’پلیز امریکا کو انکار کر دیں‘‘ میں لکتے ہیں کہ ۔۔۔سی آئی اے نے دسمبر میں دونوں ملیشیا کے لوگ مارنا شروع کر دیے‘ جنرل قاسم سلیمانی نے بدلا لینے کا فیصلہ کیا اور31 دسمبرکوہزاروں مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پردھاوا بول دیا‘ عمارت کو آگ لگ گئی‘مظاہرین نے سیکورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے اور سفارتخانے کی عمارت پر
حزب اللہ کا پرچم بھی لہرا دیا اور جنرل قاسم سلیمانی یمن میں بھی امریکی اہداف کو نشانہ بنا رہے تھے‘ امریکا کو وہاں بھی ہزیمت کا سامنا تھا لہٰذا امریکی صدر نے جنرل قاسم سلیمانی کوقتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔امریکا کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ سی آئی اے یا ایران میں موجود اپنے جاسوسوں کے ذریعے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرا دیتا یا پھر یہ ان پر سیدھا حملہ کر دیتا‘ صدر ڈونلڈٹرمپ نے دوسرا طریقہ اختیار کیا‘ جنرل قاسم تین جنوری کو اپنے سات ساتھیوں کے ساتھ بغداد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اترے‘ یہ سرکاری دورے پر عراق آئے تھے‘ یہ رات ایک بجے بغداد کے ہوائی اڈے سے باہر نکلے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر سی آئی اے نے ان پر ڈرون حملہ کر دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور پاس داران انقلاب کے نائب ابو مہدی المہندس سات ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے‘ یہ امریکا کی طرف سے براہ راست حملہ تھا‘ امریکا ردعمل سے واقف تھا لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے باوجود انتہائی قدم اٹھایا‘اس کی وجہ بظاہر سمجھ نہیں آ رہی‘ پوری دنیا جانتی ہے ایران کے پاس دو ہزارکلو میٹر تک وار کرنے والے میزائل بھی موجود ہیں اور یہ خفیہ طور پر جوہری طاقت بھی ہے‘ یہ برسوں قبل ایٹم بم بنا چکا ہے‘ امریکا کی طرف سے ایران کے ساتھ چھیڑ چھاڑ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے مگر امریکی صدر نے اس کے باوجود یہ قدم اٹھایا‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ہمیں اس کے جواب کے لیے اسلامی دنیا کی بیس سال کی
تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا‘ بیس سال قبل دنیا میں چھ مضبوط اسلامی فوجیں تھیں‘ عراق‘ لیبیا‘ شام‘ ترکی‘ ایران اور پاکستان‘ یہ چھ فوجیں اگر مل جاتیں تو یہ یورپ‘ امریکا اور اسرائیل کو ناک سے چنے چبوا دیتیں‘ بڑی طاقتیں اس سچائی سے واقف تھیں لہٰذا امریکا نے خاص تکنیک سے یہ فوجیں ختم کرنا شروع کر دیں‘ صدام حسین کو اکیلا بھی کیا گیا اور اسلامی دنیا کا ولن بھی بنا دیا گیا اور پھر 2003ءمیں
حملہ کر کے صدام حسین اورعراق کی فوج دونوں تباہ کر دیں۔لیبیا کے کرنل قذافی اور فوج کو 2011ءمیں تباہ کر دیا گیا‘ شام میں مارچ 2011ءمیں حالات خراب ہوئے اور یہ ملک اوراس کی فوج دونوں تباہ ہوتے چلے گئے‘ اگر روس اور ایران شام کے صدر بشار الاسد کا ساتھ نہ دیتے تو یہ ملک اس وقت تک عراق بن چکا ہوتا‘ ترکی میں فوج نے جولائی 2016ءمیں طیب اردگان کے خلاف بغاوت کر دی‘ یہ بغاوت بھی امریکا سے سپانسرڈ تھی اور اس کا مقصد طیب اردگان‘ ترک معیشت اور فوج تینوں کا خاتمہ تھا‘ بغاوت ناکام ہو گئی لیکن ترک فوج کو شدید نقصان پہنچا۔