اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ترمیمی آرڈیننس پر کم و بیش سات آٹھ ماہ کا وقت لگا ہے، اس آرڈیننس میں بہت اہم شخصیات نے کردار ادا کیا، معروف صحافی اختر صدیقی نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس آرڈیننس کو کوئی سمجھ نہیں پا رہا ہے، کہا یہ جا رہا ہے کہ اس سے فلاں فلاں کو ٹائدہ ہو گا، حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت کا ایسا شکنجہ ہے جو اچانک ہی سب کو دبوچے گا اور پھر سب ہی حیران و پریشان رہ جائیں گے کہ ہوا کیا۔
اس آرڈیننس میں بڑی بڑی شخصیات متحرک رہیں اور خاص طور پر بابر اعوان بہت زیادہ متحرک رہے ہیں اور انہوں نے کئی بار وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی، اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے پیپلزپارٹی کے ایسے وکلاء کی خدمات حاصل کی گئیں جو آج بھی تحریک انصاف کے مخالف بیان دے رہے ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ یہ آرڈیننس غلط ہے، حکومت نے جعل سازی کی ہے اور لوگوں کوبچایا جا رہا ہے اور خود کو بچایا جا رہا ہے،ان لوگوں نے نہ صرف نیب ترمیمی آرڈیننس کی نوک پلک سنواری بلکہ کہاں زیر زبر لگنا ہے یہ سب انہوں نے بتایا ہے اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان وکلاء نے نہ صرف نوک پلک سنواری ہے بلکہ اس کے نیچے انہوں نے دستخط کرکے بھیجے ہیں جو اس وقت حکومت کے پاس ہیں اور قومی اسمبلی اور سینٹ اجلاس میں کافی کھلبلی مچے گی، کافی معاملات سامنے آئیں گے، اصل شکنجہ سیاسی شخصیات پر ابھی بھی قائم ہے، بیورو کریسی اس سے بچ جائے گی جیسے فواد حسن فواد ہیں جیسے باقی نام ہیں وہ بچ جائیں گے، مگر جو اس کے پیچھے کھڑے ہیں جن کے کہنے پر انہوں نے سب کچھ کیاہے ان کو بچنے کی شاید ہی مہلت مل جائے، اس آرڈیننس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ یہ ہے کہ اب کچھ بھی معاملہ لوگوں سے پوشیدہ نہیں رہے گا سب کچھ سامنے آ جائے گا، شہباز شریف اور نواز شریف کے اب تک جو معاملات چھپے ہوئے تھے وہ بھی اب سامنے آ جائیں گے، حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والوں میں سردار لطیف خانہ کھوسہ، رضا ربانی صاحب ہیں انہوں نے اپنی رائے بھی دی ہے اور حکومت کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے،
جہاں تک اس آرڈیننس کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستوں کا تعلق ہے تو اب تک نو درخواستیں اس آرڈیننس کے خلاف دی جا چکی ہیں، سپریم کورٹ یہ دیکھے گی کہ یہ آرڈیننس بدنیتی پر مبنی تو نہیں ہے یا پھر قانون کی کسی شق سے متصادم تو نہیں ہے اگر ایسی صورتحال نہیں ہوتی تو پھر یہ درخواستیں خارج ہو جائیں گی اوراگر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ اس سے عام آدمی کے حقوق متاثر ہوئے ہیں اور یہ بنیادی اہمیت بھی ہے تو تب جا کر اس کی سماعت ہو گی، ہائی کورٹ میں چھٹیاں ہونے کی وجہ سے ہائی کورٹ ابھی ان درخواستوں کو نہیں سنے گی لیکن سپریم کورٹ کسی بھی وقت اسے سماعت کے لیے مقرر کر سکتی ہے اور اس پرکوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔