راولپنڈی( آن لائن ) ترک حکام کی جانب ے ملک بدر کیے گئے 110 پاکستانی اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچ گئے جن میں سے 2 افراد کی پسلیاں اور ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے۔ڈی پورٹ کیے گئے دونوں زخمیوں میں سے رحمت جاوید سیالکوٹ جبکہ زبیر حسین اسلام آباد کے رہائشی ہیں جن کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث پمز میں داخل کروادیا گیا۔
اس ضمن میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ قید کے دوران دونوں افراد کو تشدد کر کے زخمی کیا گیا۔ترکی کے قید خانوں میں موجود پاکستانیوں کی درست تعداد کا علم نہیں لیکن حکام کا کہنا تھا کہ وہاں بڑی تعداد میں لوگ ہیں۔ایئرپورٹ پہنچنے پر ڈی پورٹ ہونے والے تمام افراد کو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے انسداد انسانی ٹریفکنگ سیل کی قیدی وینز میں لے جایا گیا جبکہ 2 زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔ان 110 افراد میں سے 42 کا تعلق گجرات، 38 کا گوجرانوالہ، 24 کا پشاور، 3 کا اسلام آباد اور 2 کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے جنہیں ترک حکام نے غیر قانونی طور پر ملک میں داخلے کے وقت پکڑا تھا۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستانی بہتر مواقعوں کی تلاش میں دشوار گزار زمینی راستوں سے سفر کر کے ترکی پہنچے تھے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔سینئر عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ملک بدر کیے گئے افراد سلاخوں کے پیچھے ہیں جنہیں قانونی کارروائی کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے گا اور مقامی عدالت اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کسے رہا کیا جائے تاہم انہوں نے اپنے ملک میں کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔اس سے قبل ترکی کے مشرقی علاقے عادل جواز میں پناہ گزینوں کو لے جانے والی کشتی الٹنے کے نتیجے میں 2 پاکستانی ہلاک ہوگئے تھے جس کی تصدیق ترجمان دفتر خارجہ نے بھی کی تھی۔
ترجمان دفترخارجہ نے کہا تھا کہ ترکی میں ہمارا سفارت خانہ اور استنبول میں قونصل جنرل مقامی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ مزید معلومات حاصل کی جائیں اور پاکستان کے شہریوں کو ممکنہ امداد فراہم کی جاسکیں۔بیان کے مطابق ترک حکام جاں بحق افراد کی شناخت کے لیے بھرپور کام کررہے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ نے بیان میں کہا تھا کہ جاں بحق افراد کی شناخت ہوتے ہی ان کے اہل خانہ کو آگاہ کیا جائے گا اور لاشوں کی وطن واپسی کے لیے متاثرہ خاندانوں سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا تھا کہ دو پاکستانی جاں بحق ہوگئے ہیں تاہم دیگر 23 پاکستانیوں کو بچالیا گیا ہے جو مقامی ترک حکام کے پاس موجود ہیں اور جن کو طبی امداد کی ضرورت تھی انہیں امداد دی جارہی ہے۔