اسلام آباد (این این آئی) سابق چیئر مین سینٹ رضا ربانی نے کہاہے کہ ایگزیکٹو،پارلیمنٹ اور جوڈیشری کے درمیان ڈائیلاگ ہونا چاہیے،ڈائیلاگ کو لیڈ پارلیمنٹ کر سکتی ہے،پارلیمنٹ موجود ہے فنکشنل نہیں،ریاست کو صحیح معنوں میں کھڑا کرنا اور آگے لیکر چلنا ہے تو ادارے اپنی حدود کے اندر ر کر آئین کے مطابق چلیں۔ جمعہ کو سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ 2017 میں اداروں کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر تھی،
اس وقت کہا تھا کہ تمام اداروں میں ڈائیلاگ کی ضرورت ہے،سب سے کمزور ادارہ پارلیمنٹ کا تھا۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ اور ایگزیکٹو،پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت کررہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ میں اسوقت یہ رولنگ نہیں دے سکا،آئین کے تحت دی گئی طاقت اور تین اداروں کا اختیار واضح کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کتاب میں پارلیمنٹ کے کردار کو بھی واضح کیا ہے،اس وقت کرائسسز آف دی سٹیٹ ہے،پارلیمنٹ موجود ہے لیکن فنکشنل نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ آئین موجود ہے لیکن آئین سے ماورا چیزیں کی جا رہی ہیں،اداروں کے درمیان پولرائزیشن بڑھتی جا ری ہے،ریاست کو صحیح معنوں میں کھڑا کرنا اور آگے لیکر چلنا ہے تو ادارے اپنی حدود کے اندر ر کر آئین کے مطابق چلیں۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ میں قانون سازی نہیں ہو رہی،پارلیمنٹ میں عوامی مسائل پر بات نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹو کا احتساب نہیں ہو رہا،پارلیمانی کمیٹیاں بھی فعال کام نہیں کر پا رہیں،میری کتاب اس بحث کو جنم دے گی کہ ہم واپس قانون کی سالمیت کی جانب جائیں۔ انہوکں نے کہاکہ آج بھی ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے،ریاست،سٹیٹ آف کرائسسز کے اندر ہے۔ انہوں نے کہاکہ صوبوں کی خود مختاری بری طرح متاثر ہو رہی ہے،وفاق از خود بہت سے معاملات اپنی طرف کھینچ رہا ہے جو آئین کے تحت صوبوں کا اختیار ہے،لااہور واقعہ سسٹم کی ناکامی ہے،سوسایٹی میں عدم برداشت کا ریفلیکشن ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس واقعہ پر ایڈمنسٹریشن کی ناکامی ہے،
وکلاء کے احتجاج کا ایڈمنسٹریشن کو پتہ تھا، پی آئی سی ہسپتال کے اندر اور باہر جو ہوا وہ قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹو،پارلیمنٹ اور جوڈیشری کے درمیان ڈائیلاگ ہونا چاہیئے،ان ڈائیلاگ کو لیڈ پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ چیف آف آرمی سٹاف کے مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ابھی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، پہلے دیکھیں کہ حکومت کیا کرتی ہے پھر اس پر رائے دوں گا۔انہوں نے کہاکہ سٹوڈنٹس یونین کی بحالی پر بحث کا آغاز سینیٹ کی ہول کمیٹی نے کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ وائلنس پیدا ہونے کی دلیل پر بتائیں کہ کل جو اسلامی یونیورسٹی میں ہوا،
اس وقت تو یونینزبحال نہیں تھیں۔ انہوں نے کہاکہ جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہے وہ سوسائٹی میں پیدا ہونے والے عدم برداشت کا عکاس ہے، موجودہ حکومت سے شاید ضیاء الحق کی شوریٰ زیادہ موثر تھی۔ انہوں نے کہاکہ آئین کی موجودگی میں آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے ممبران کا نوٹیفکیشن کیسے نکال دیتے ہیں؟،سب سے بڑا لمیہ یہ ہو رہا ہے کہ سول سوسائٹی کی مزاحمت کا کلچر ختم ہو گیا ہے،اب حکومت اور اپوزیشن پر سول سوسائٹی اور عوام کا چیک اینڈ بیلنس ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اس مزاحمت کے کلچر کو دوبارہ واپس لانا ہے،پارلیمنٹ کو سپریم باور نہ کرانے میں سیاسی جماعتوں کا کردار تو بنتا ہے،سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنا کلیدی کردار ادا نہیں کر رہیں۔