کراچی (این این آئی) کراچی کے علاقے ڈیفنس میں بیٹے کے ساتھ قتل ہونے والے داؤد انجینئرنگ کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر فصیح الحق عثمانی کی بیوہ آسیہ عثمانی نے کہا ہے کہ میرے شوہر اور بیٹے کے قتل کیس میں پولیس کی جانب سے ملزمان کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس کیس میں پولیس بھی ملوث ہے۔میری جان کو بھی خطرات لاحق ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے سکیورٹی فراہم نہیں کی جارہی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعلیٰ سندھ سے اپیل ہے کہ وہ واقعہ کا نوٹس لیں اور ملزمان کی گرفتاری کے احکامات جاری کریں۔ جمعہ کو کراچی پریس کلب میں اپنے وکیل ملک مظہر حسین کھوکھر ایڈوکیٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے شوہر ڈاکٹر فصیح الحق عثمانی اور نوجوان بیٹے کامران عثمان کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا لیکن اب تک پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس میں پولیس ملوث ہے۔ ملزمان کے فنگر پرنٹس گھر میں موجود تھے لیکن اس کے باوجود تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔پولیس گھر کی تلاشی کے دوران بہت سا قیمتی سامان اپنے ساتھ لے گئی جو اب تک واپس نہیں کیاگیا ہے۔کرایہ داروں کے حساب کتاب کے کھاتوں کو پھاڑدیا گیا۔پولیس نے بنگلہ سیل کیا لیکن اس کے باوجود اہم دستاویزات غائب ہوگئے ہیں۔قتل کی واردات کے بعدملزمان گھر کے کاغذات اور نقدی چوری کرکے لے گئے۔قاتلوں کے بعد چوروں کا بھی نہیں پتہ چل سکا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا جائے کہ ملزمان کو کون بچانے کی کوشش کررہا ہے۔میرا گھر آفاق احمد کے گھر کے پاس ہے،پراسرار طور پر تحقیقات کرنیوالے تینوں اعلی افسران کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔ انہوں کیوں ٹرانسفر کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ میرے شوہر داؤد انجینئرنگ کالج کے سربراہ رہے اور بیٹا امریکا سے اعلی تعلیم یافتہ تھا۔دونوں امریکی شہری تھے۔میرا بیٹا وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا تھا۔
آسیہ عثمانی نے کہا کہ میری زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ دھمکی آمیز کالز کی جارہی ہیں،جس میں مجھے ملک چھوڑنے کا کہا جارہا ہے۔ہر دس منٹ بعد ایک دھمکی آمیز کال آتی ہے۔پولیس نے یہ نمبرز دے دیئے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آسکی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے متعدد بار اعلیٰ حکام کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کہا ہے کہ لیکن مجھے تاحال سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے خاموش رہنے کا کہاجارہا ہے لیکن میں اب خاموش نہیں رہوں گی۔اس موقع پر ملک مظہر حسین کھوکھر ایڈوکیٹ نے کہا کہ پولیس ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ان کی جانب سے صرف باتیں ہی ہورہی ہیں۔میری چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعلیٰ سندھ سے اپیل ہے کہ وہ واقعہ کا نوٹس لیں اور میری موکلہ کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے۔