اسلام آباد (این این آئی) اسلام آبا ہائی کورٹ نے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق نے توہین عدالت پر معافی قبول کرتے ہوئے نیا نوٹس جاری کر دیا اور معاون خصوصی کو پیر تک تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دیا ہے جبکہ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاہے کہ یقین ہے آپ کو وزیراعظم نے ایسا کہنے کیلئے نہیں کہا ہو گا۔جمعہ کو کیس کی سماعت ہائی کورٹ کے
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی دور ان سماعت وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور عدالتی نوٹس پر پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ، ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداران عدالت میں پیش ہوئے ،وکلا تنظیموں کے نمائندوں کو معاونت کیلئے طلب کیا گیا۔ چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر معاون خصوصی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ اس ملک کے وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں،وزیر اعظم ہمیشہ رول اینڈ لاء کی بات کرتے ہیں،آپ نے اپنی پریس کانفرنس کی ذریعے زیر سماعت مقدمات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ انہوںنے کہاکہ میرے بارے میں جو کے کہیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں،میری ذات کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے پرواہ نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ حکومت کی ترجمان ہیں اور اہم ذمہ داری آپ کے پاس ہے۔ معاون خصوصی نے کہاکہ ایک منٹ دیں ہم جواب دیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اہم معاملہ ہے پہلے ہائی کورٹ رول پڑھیں۔ انہوںنے کہاکہ حکومت کے اپنی میڈیکل بورڈ نے کہا کہ نواز شریف کی حالت خراب ہے،کم سے کم کچھ کہنے سے پہلے اپنے وکلاء سے پوچھ لیں۔ انہوںنے کہاکہ کبھی آپ نے دیکھا کہ ہم کس طرح زیر التوا کیسز کو نمٹا رہے ہیں,۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ آپ چار پانچ سال کا مارا ریکارڈ دیکھیں،بہتر ہوتا کہ آپ سیاست کو عدالتوں سے دور رکھیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے حلف لیا ہوا ہے
حکومت کی عزت کرتے ہیں تاہم پریس کانفرنس نہیں کر سکتے۔ انہوںنے کہاکہ کیا آپ ہماری ڈسٹرکٹ کورٹ گئی ہیں وہاں ججز اور وکلاء کیسے کام کر رہے ہیں،ہمارے سول ججز کی عدالتیں دوکانوں میں بنی ہوئی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کبھی انتظامیہ کو خیال نہی آیا کہ عام سائلین کے لئے سہولیات پیدا کرنی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے سول ججز کے لئے ٹائلٹس بھی موجود نہیں ہیں ،ہم توقع کرتے ہیں کہ
فری ہو کر آپ ڈسٹرکٹ کورٹ جائیں گئی۔ انہوںنے کہاکہ آپ کے پاس اہم ذمہ داری ہے آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔ انہوںنے کہاکہ کبھی کوئی کہتا ہے ڈیل ہو گئی، آپ حکومت ہیں ذمہ داری دیکھائیں۔انہوںنے کہاکہ میں توقع کرتا ہوں جو کچھ آپ نے کہا وہ وزیراعظم نے آپ کو نہیں کہا۔ دور ان سماعت معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور کہاکہ آپ کا بہت شکریہ کہ
جن چیزوں سے لاعلم تھی وہ مجھے بتایا۔ انہوںنے کہاکہ میں آپکی ذات کو جانتی ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اس بات کو چھوڑ دیں۔ فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ میں دانستہ طور پر عدالت کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی،اگر میرے الفاظ کی وجہ سے عدالت کی توہین ہوئی ہے تو معافی مانگتی ہوں، عدالت معافی دے آئندہ الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہوں گی۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدالت آپکو نوٹس نہیں کرنا چاہتی تھی، عدالتی فیصلوں پر لوگوں کو اعتماد ہے جب کابینہ اس اعتماد کو توڑے گی تو نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت نے لوگوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کبھی کوئی کہتا ہے ڈیل ہو گئی ہے کیا عدالت پر پریشر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے،آپ حکومت کی ترجمان ہیں آپکا ہر لفظ نپا تلا ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں وزیراعظم کا معاون ہوتا تو اس طرح کی باتیں نہ کرتا، جج پر ذاتی تنقید پر عدالتیں ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں،عدالت اس حوالے سے آپ کی
معافی قبول کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ آپ کے خلاف توہین عدالت کا پرانا شوکاز نوٹس واپس لیا جا رہا ہے تاہم آپ کو کریمنل توہین عدالت کا نیا نوٹس جاری کیا جا رہا ہے، عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نے جان بوجھ کر عدلیہ کی تضحیک اور زیر سماعت کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔چیف جسٹس نے کہاکہ جب فیئر ٹرائل کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے تو اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو پیر تک تحریری جواب داخل کرانے کاحکم دیتے ہوئے کیس کو منگل کے لیے سماعت کرنے کی ہدایت کی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ آپ کو یہاں سے ڈسٹرکٹ کورٹس لے کر جائیں گے، آپ دیکھیں کہ ججز اور وکلا صاحبان کس طرح کام کر رہے ہیں، وہاں عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدلیہ نہیں بلکہ تیس سال سے انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ ہے ۔ فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ منگل کو کابینہ کی میٹنگ ہوتی ہے اس دن سماعت نہ رکھیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہی کابینہ میٹنگ رکھوائیں تاکہ وہ وہاں کے حالات دیکھیں، آئندہ سماعت کی تاریخ تبدیل نہیں کی جائے گی۔بعد ازاں فردوس عاشق اعوان کو بار کے نمائندوں کے ساتھ ڈسٹرکٹ کورٹس کے دورے کا حکم دیا ۔