اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی و کالم نگار وجاہت مسعود اپنے کالم ’’ماں، سیاست دان اور قلم ریٹائر نہیں ہوتے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف عبوری ضمانت کا حتمی فیصلہ ہونے تک بدستور اسپتال میں ہیں۔ البتہ یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ چکا کہ احتساب کی بندوق رنجک چاٹ گئی ہے۔ اسلام آباد میں صاحب فراش آصف علی زرداری کے دست راست یوسف رضا گیلانی ملتان میں آزادی مارچ کا
خیر مقدم کر رہے ہیں۔ سرکار دربار سے حماقتوں کا ورود جاری ہو چکا۔ حافظ حمداللہ کی شہریت کی منسوخی مولانا جان محمد عباسی کے اغوا جیسی نامسعود سعی ہے۔ سرکاری اہل کاروں کی ان کارگزاریوں سے جہاز کے پیندے میں سوراخ بڑھتا چلا جاتا ہے۔گبریل لاؤب نے کیا اچھا لکھا، ڈوبتے ہوئے جہاز سے چھلانگ لگانے والے چوہوں کو کیوں مطعون کیا جاتا ہے۔ ڈوبتے ہوئے جہاز میں چوہے کر بھی کیا سکتے ہیں؟ لاؤب ہی کی رنجیدہ منطق کا ایک اور نشتر دیکھئے، ’’میری رعایا آزاد ہے اور اسے آزادی سے محبت کرنے کا حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ ہمارے ہان یہ فرمان اینکر پرسن پر تجزیہ کرنے کی پابندی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔غالباً کسی نامعلوم عبقری نے اپنی کتاب ملازمت سے صحافی کے فرائض کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ مامتا اور سیاست کی طرح صحافت بھی روزگار نہیں، رضاکارانہ طور پر اٹھائی گئی تمدنی ذمہ داری ہے۔ صحافی خبر رکھتا ہے اور خبر دیتا ہے۔ ریاستی اہل کار سیاست کے نامیاتی تعامل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پیمرا کا ادارہ قلم کے زاویے اور لفظ کی نشست متعین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔اس ملک نے سیاست اور سیاست مخالف دھاروں کی ایک طویل کشمکش دیکھی ہے۔ ریاستی منصب کی آڑ میں جمہور پر اختیار کی خواہش لے دے کے یہی سوچ سکتی ہے کہ لیاقت علی خان کو قتل کر کے سیاست کی کھیتی اجاڑی جا سکتی ہے۔
سہروردی کو قید کر کے اس کی سیاست ختم کی جا سکتی ہے۔ اگرتلہ کی رام کہانی سے مشرقی پاکستان کی سیاسی امنگوں کو کچلا جا سکتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر لامحدود اقتدار کا راستہ صاف کیا جاسکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کو علاج کے بہانے فرانس بھیج کر اقتدار میں توسیع مل سکتی ہے۔ پرویز مشرف فرماتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے لئے پاکستان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں۔
بے نظیر بھٹو اس شان سے وطن واپس آئیں کہ ان کی قبر پر احترام کے دھانی بادل کا دائمی سایہ رہے گا۔نواز شریف وہ زندہ شہید ہے جسے پانامہ اور اقامہ سے ختم کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ پاکستان کی دھرتی یہاں بسنے والوں کی ماں ہے، سیاست یہاں کے باشندوں کا وہ حق ہے جسے فرمان شاہی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صحافی کا قلم اس زمیں کی امانت ہے۔ جسٹس رستم کیانی سے نومبر 1962میں کسی نے پوچھا، آپ ریٹائر ہو رہے ہیں؟ فرمایا No. I am going forward. دھرتی سے رشتہ رکھنے والے، جمہور سے محبت کرنے والے اور عوام کا دکھ بیان کرنے والے ریٹائر نہیں ہوتے۔