اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار حامد میر اپنے حالیہ کالم ’’اصل خطرہ؟‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔ریاست ماں کے بجائے بدمعاش بن جائے تو اپنے لئے محبت نہیں بلکہ نفرت پیدا کرتی ہے۔ یہی وہ نفرت تھی جس نے 1971میں پاکستان کو دو لخت کیا۔ کون نہیں جانتا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکہ میں بنائی گئی اور مسلم لیگ کی پہلی حکومت بھی بنگال میں قائم ہوئی اور 23 مارچ 1940 کو لاہور میں
مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کے بارے میں قرارداد پیش کرنے کا اعزاز بھی ایک بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق کو حاصل ہوا لیکن جب پاکستان بن گیا تو بنگالیوں نے ناانصافی کی شکایت کی۔ اُن کی شکایت دور کرنے کے بجائے اُنہیں ریاست کا باغی قرار دے دیا گیا اور یوں پاکستان توڑ دیا گیا۔ افسوس کہ یہ ریاست اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں اور آج بھی لوگوں کو زبردستی غدار اور باغی بنانے پر تُلی بیٹھی ہے۔ پہلے تو صرف حب الوطنی مشکوک بنائی جاتی تھی اب شہریت کو مشکوک بنانے کی روایت ڈال دی گئی ہے۔ 26 اکتوبر کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللّہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ افغان ہیں۔ اس اعلان کے فوراً بعد ایک اور ادارے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے تمام ٹی وی چینلز کو تحریری ہدایات جاری کیں کہ حافظ حمداللہ کو ٹی وی پروگراموں میں مدعو نہ کیا جائے کیونکہ وہ پاکستانی نہیں۔ اوپر تلے دو ریاستی اداروں کے اعلانات سے واضح ہو گیا کہ اصل مسئلہ حافظ حمداللّہ کی شہریت نہیں بلکہ مختلف ٹی وی چینلز پر اُن کی گفتگو تھی۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں جے یو آئی کی نمائندگی کر رہے تھے اور 27 اکتوبر سے شروع ہونے والے آزادی مارچ کے ساتھ ساتھ نواز شریف کا
بھی دفاع کر رہے تھے۔ مختلف ریاستی اداروں نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی تقاریر اور انٹرویوز دکھانے پر غیر علانیہ سنسر شپ عائد کر دی تھی۔ اس سنسر شپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ حافظ حمداللّہ، مولانا عطاء الرحمٰن، مولانا عبدالغفور حیدری، اکرم درانی اور حافظ حسین احمد سمیت جے یو آئی ایف کے کئی رہنما مختلف ٹاک شوز پر جلوہ افروز ہونے لگے اور حکومت کے
وزراء کو آڑے ہاتھوں لینے لگے۔ حافظ حمداللّہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ ایم اے پولیٹیکل سائنس بھی ہیں۔ بلوچستان کے وزیرِ صحت رہے، پھر چھ سال تک سینیٹ کے رکن رہے اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس وقت کس کو کس انداز اور کس لب و لہجے میں کیا جواب دینا ہے لہٰذا فصاحت و بلاغت اور جرأت کا امتزاج بن کر سامنے آئے تو اُنہیں چپ کرانے کے لئے
ریاست کے قانون کو ناجائز اسلحے کے طور پر استعمال کیا گیا اور اُن کی پاکستانی شہریت پر گولی چلا دی گئی۔آیئے دیکھتے ہیں کہ حافظ حمداللّہ کی شہریت کے بارے میں ریاست کے موقف میں کتنی صداقت ہے؟ حافظ حمداللّہ 1968میں بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد مولانا ولی محمد ایک سرکاری اسکول میں اُستاد تھے۔ مولانا ولی محمد کے کچھ رشتہ دار افغانستان میں رہتے تھے۔ 1975
میں انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ بنوایا اور 1976میں افغان قونصلیٹ کوئٹہ سے ویزا حاصل کر کے افغانستان گئے۔ اُن کا پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور اس پر افغانستان کا ویزا ابھی تک محفوظ ہے۔ چمن کے بہت سے لوگ بغیر ویزے کے افغانستان آتے جاتے ہیں کیونکہ اُن کی زمینیں اور کاروبار افغانستان میں ہے لیکن مولانا ولی محمد 1976میں بھی ویزا لے کر افغانستان گئے۔
اگر وہ افغان نہیں تو اُن کا بیٹا حافظ حمداللہ کیسے افغان بن گیا؟ اگر حافظ حمداللّہ افغان شہری تھے تو نادرا کو 2002 میں کیوں پتا نہ چلا جب وہ بلوچستان کے وزیرِ صحت بنے؟ حافظ حمداللّہ کا ایک بیٹا پاکستان آرمی میں نوجوان آفیسر ہے۔ اگر باپ افغان تھا تو یہ نوجوان پاکستان آرمی میں کیسے بھرتی ہوا؟ سچ یہ ہے کہ حافظ حمداللّہ کے والد بھی پاکستانی تھے، وہ خود بھی پاکستانی ہیں
اور اُن کی پوری اولاد پاکستانی ہے۔ جن لوگوں نے انہیں افغان قرار دیا ہے، اُن کا ذہن پاکستانی نہیں ہے، وہ لوگ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ذہن سے نہیں بلکہ جنرل ایوب خان کے ذہن سے سوچتے ہیں جس نے فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا تھا۔جس دن ریاستی اداروں نے حافظ حمداللّہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کی اور پاکستان کے ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں اُن کی شرکت پر پابندی لگائی
اُسی دن حکومت کے ایک ڈپٹی کمشنر نے اپوزیشن کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا جس میں طے پایا کہ جے یو آئی 31 اکتوبر کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوگی بلکہ پشاور موڑ پر جلسہ کرے گی۔ ایک طرف یہ معاہدہ کیا گیا، دوسری طرف حافظ حمداللّہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کی گئی، تیسری طرف مولانا فضل الرحمٰن کو میڈیا پر کم سے کم دکھانے کا دباؤ بھی موجود ہے۔
ایک طرف حکومت کے وزراء جے یو آئی سے مذاکرات کرتے ہیں دوسری طرف الزام لگاتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ نے مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹا دی ہے۔ حکومت کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ حکومت کا وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑا ہو کر بھارتی وزیراعظم کو ہٹلر سے تشبیہ دیتا ہے اور کچھ دن بعد یہی حکومت کرتار پور راہداری پر اسی ہٹلر کی حکومت کے ساتھ
ایک معاہدے پر دستخط بھی کرتی ہے۔ کیا نواز شریف اور آصف زرداری کو کرتار پور راہداری پر بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنے کی اجازت مل سکتی تھی؟ اس معاملے پر بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں اور اگر جواب نہ آئے تو یہ سوالات بارودی سرنگیں بن جائیں گے اور یہ بارودی سرنگیں پھٹنے لگیں تو بہت نقصان ہوگا۔ عمران خان کے دورِ حکومت اور اندازِ حکومت نے ریاست کے اندر موجود
تضادات کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ ریاست کا اصل مسئلہ کمزور معیشت نہیں بلکہ کمزور اخلاقی قدریں ہیں۔ یہ ریاست جھوٹ بھی بولتی ہے اور اپنا قانون خود اپنے پائوں تلے بھی روندتی ہے۔ جو کام عمران خان کے لئے 2014میں جائز تھا وہ 2019 میں فضل الرحمٰن کے لئے ناجائز ہے اور اگر حافظ حمداللّہ ریاستی اداروں کے اس دوغلے پن کو بے نقاب کرے تو اُس کی شہریت منسوخ کر دی جائے گی۔ اس ریاست کو حافظ حمداللّہ سے نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں سے خطرہ ہے۔