اسلام آباد (این این آئی)ماہر قانون راجہ عامر عباس نے کہا کہ اگر ڈاکٹرز رپورٹ دیں کہ جیل میں رہنے پر قیدی کی جان کو خطرہ لاحق ہے تو ضمانت بھی مل جاتی ہے اور سزا معطل بھی ہو جاتی ہے۔ایک انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ اگرچہ ضمانت دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تاہم تفصیلی فیصلہ سامنے آنے پر علم ہو گا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ نے ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی ہے یا نہیں۔
راجہ عامر عباس نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سزایافتہ شخص کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے؟انہوں نے کہاکہ اس سے قبل میاں نواز شریف کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا تھا کہ بیماری کی بنیاد پر ضمانت ملنے کے بعد کوئی بیرون ملک چلا جاتا ہے اور واپس نہیں آتا تو کون ذمہ دار ہو گا۔انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی رہنما کا مقدمہ سننے کے لیے تعطیل کے دوران بھی ایک خصوصی بنچ بنا دیا جاتا ہے، یہ سہولت عام ملزمان کے لیے میسر نہیں ہے، قانون غریب اور امیر کے لیے برابر نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے میاں نواز شریف نیب کی تحویل میں تھے اس لیے ان کی طبیعت خراب ہونے کی ذمہ داری حکومت پر عائد نہیں ہے بلکہ اس کا جواب نیب کو دینا چاہیے۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ زندگی کا حق سب سے کسی کا بھی بنیادی آئینی حق ہے تاہم بظاہر میاں نواز شریف کا بیرون ملک جانے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا، ماضی میں بھی وہ سزا ہونے کے باوجود ملک میں واپس آئے گئے تھے۔احتساب کے عمل پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے لیے مہذب اور شائستہ طریق کار اپنانا چاہیے، ملزم کے مذاق اڑانے اور اس پر سختی روا رکھنے سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں آسکتی۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ تمام سیاست دانوں کو آپس میں لڑنے کے بجائے این آر او کر لینا چاہئے۔ماہر قانون خواجہ نوید نے کہا کہ اگر ڈاکٹر رپورٹ دے کہ
قیدی کے جیل میں رہنے سے اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے تو عموماً عدالتیں ضمانت دے دیتی ہیں۔انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ سزا معطل ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے، تین یا پانچ سال کی سزا ہو اور بیماری کا مسئلہ ہو تو فوری ضمانت مل جاتی ہے۔بیرسٹر خواجہ نوید نے بتایا کہ میاں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت ملنا ایک قانونی نظیر بن جائے گا جس سے غریب افراد بھی فائدہ اٹھا سکیں گے، آئینی طور پر ماتحت عدلیہ اس نظیر کو تسلیم کرنے کی پابند ہے۔