انسان کے بعض اوقات دو ایسے چہرے سامنے آ جاتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے (ان) میں سے۔۔اس کا کون سا چہرہ اصلی ہے مثلاً آپ شیخ رشید کو لے لیجیے‘ یہ جب اپوزیشن میں تھے تو یہ کیا فرمایا کرتے تھے اور یہ آج جب حکومت میں ہیں تو یہ کیا فرما رہے ہیں‘ اصل شیخ رشید کون ہے اور ہمیں کس کی بات پر یقین کرنا چاہیے آپ خود دیکھ لیجیے یہ فیصلہ کتنا مشکل ہے لہٰذا یہ فیصلہ میں آپ کی ذہانت پر چھوڑتا ہوں اور آج کے موضوع کی طر ف آتا ہوں۔
”رہبرکمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے پرویز خٹک کیساتھ ساتھ قائم مقام صدر اور چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی سے بھی رابطہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق رہبر کمیٹی کے سربراہ اور جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم درانی نے حکومتی کمیٹی کے ارکان اور سربراہ کو اپنے مطالبات سے آگاہ کر دیا اس کے جواب میں وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے اکرم درانی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی کمیٹی کا اجلاس بلایا ہے، مشاورت کر کے آپ سے رابطہ کریں گے۔رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم خان درانی کا کہنا تھا کہ میری وزیر دفاع پرویز خٹک اور چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی سے بات ہوئی ہے، حکومتی کمیٹی کو بتایا ہے کہ ہماراموقف اور مطالبات پہلے والے ہیں، حکومتی کمیٹی مشاورت کر کے بتائے گی حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے کہ نہیں“ رہبر کمیٹی نے حکومت سے مذاکرات کی مشروط آمادگی ظاہر کر دی۔۔لیکن کیا اپوزیشن کی شرائط حکومت کے لیے قابل قبول ہیں‘ حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا‘ کیا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دروازہ (کھل) سکے گا‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جب کہ نیب نے میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کو صحت کی خرابی کی وجہ سے ہسپتال منتقل کر دیا‘ یہ دونوں واقعی علیل ہیں لیکن لوگ۔۔ان دونوں کی ہسپتال منتقلی کو مولانا کے مارچ کی برکت قرار دے رہے ہیں‘یہ کہہ رہے ہیں اگر مارچ سر پر نہ ہوتا تو یہ دونوں لیڈر بیماری کے باوجود حوالات میں پڑے رہتے‘ یہ اعتراض کس حد تک درست ہے ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے ہمارے ساتھ رہیے گا۔