اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی سلیم صافی اپنے آج کے کالم ’’پرکشش سیاسی پیکیج کی پیشکش اور مولانا کی ناں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔ایسا نہیں کہ مولانا کو منانے کی کوششیں نہیں ہوئیں، کوششیں ہوئیں اور بھرپور ہوئیں۔ان کو اچھے بھلے پیکیجز آفر کئے گئے لیکن وہ نہیں مانے۔
اس سے کام نہ چلا تو انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن پیچھے ہٹنے کے بجائے وہ مزید بپھر گئے۔وجوہات اس کی یہ ہیں کہ مولانا یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو لوگ انہیں منا رہے تھے وہ ان کے ساتھ ماضی قریب میں کئی بار دھوکہ کر چکے ہیں۔درست یا غلط لیکن مولانا کا خیال ہے کہ 2013 میں بھی ان کا حق چھین کر عمران خان کو دیا گیا اور 2018میں بھی۔یوں مولانا کسی وعدے پر یقین نہیں کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات واضح کردی ہے کہ جو کچھ ان سے کہا جارہا ہے اسے پہلے عمل کے روپ میں لایاجائے تو تب ہی وہ پیچھے ہٹیں گے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کے بارے میں مولانا روز اول سے سازشی نظریات کے قائل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 2012 میں پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے والی ایک شخصیت جب ان کے پاس گئی اور انہیں عمران خان کے ساتھ تعاون کی صورت میں پرکشش سیاسی پیکیج پیش کیا تو مولانا نے انہیں جواب دیا کہ وہ پاکستان کے کسی بھی سیاسی لیڈر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالنے کے لئے تیار ہیں لیکن ان کے ساتھ نہیں جاسکتے۔عمران خان صاحب کے ساتھ مولانا کی خصوصی رقابت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ مولانا سمجھتے ہیں اور شاید درست سمجھتے ہیں کہ عمران خان صاحب ان کے ساتھ ذاتیات پر اتر آئے ہیں۔
جلسوں میں جس طرح پی ٹی آئی کی طرف سے مسلسل ان کی تضحیک کی جاتی رہی، وہ سب کچھ مولانا نے دل پہ لیا ہوا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت کے بعد جس طرح مولانا سے ذاتی سیکورٹی واپس لے لی گئی اور جس طرح ان کے اور ان کے قریبی لوگوں کو انکوائریز کے ذریعے تنگ کیا گیا، اس کے بعد مولانا کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ موجودہ سیٹ اپ سیاسی اخلاقیات سے عاری ہے اور اس کے ساتھ اب دوسری زبان میں ہی بات کی جا سکتی ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ مولانا کو آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے انجام سے یہ سبق ملا ہے کہ نرمی اور جھکائو کی پالیسی کے نتیجے میں بھی بچائو ممکن نہیں بلکہ اس صورت میں مزید رسوائی ملتی ہے جبکہ اس کے برعکس ڈٹ جانے کی صورت میں عزت اور اہمیت دونوں بڑھ جاتی ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف نے شرافت اور تابعداری کی حد کردی لیکن صلہ ملنے کے بجائے ان کو مزید دیوار سے لگایا گیا لیکن جب سے وہ کھڑے ہوئے ہیں تو ان کے منت ترلے ہورہے ہیں۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ مولانا کو ڈٹ جانے کی صورت میں ہر طرف فائدہ ہی فائدہ نظر آگیا ہے۔ ان کی سیاسی اہمیت بڑھ گئی ہے۔کل تک ان کے انٹرویوز پر پابندی تھی لیکن آج وہ پورے پاکستانی میڈیا پر چھا گئے ہیں۔کل تک وہ زرداری اور نواز شریف کے منت ترلے کررہے تھے لیکن آج ان دونوں کی سیاست بھی مولانا کی ذات کے گرد گھومنے لگی ہے۔مولانا کو محسوس ہورہا ہے کہ پہلی مرتبہ اپنی جماعت کے کارکنوں اور مدارس کے طلبہ کے علاوہ عام پاکستانی اور لبرل عناصر بھی ان کو پسند کرنے لگے ہیں۔ تاجر اور صنعتکار اُن کے ساتھ ہیں۔گویا اس وقت مولانا کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔