ہم بھیک نہیں حق مانگ رہے ہیں،مرکزی حکومت کی حمایت کے بدلے اپنی آنکھیں بند نہیں کیں،اختر مینگل مشتعل،دھماکہ خیز اعلان کردیا

22  ستمبر‬‮  2019

کوئٹہ(این این آئی)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سرداراختر جان مینگل نے کہا ہے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم نے مرکزی حکومت کی حمایت کے بدلے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی نے نہ پہلے بلوچستان کے مفادات پر سمجھوتہ کیا اور نہ آئندہ کریگی مرکزی حکومت کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ 6نکات پرعملدرآمد میں دیر نہ کرے ہم بھیک نہیں حق مانگ رہے ہیں

جتنا جلدی ہوہمیں گھسیٹیں نہیں بلکہ ساتھ لیکر چلیں ہم سے گلہ کرنے والے کس منہ سے گلہ کر رہے ہیں جب انہوں نے وزارتوں،وزارت اعلیٰ سمیت دیگر مراعات کیلئے بلوچستان کی ننگ و ناموس کا سودا کیا اوراپنی مونچھیں تک منڈوادیں۔یہ بات انہوں نے اتوار کو ہاکی گراونڈ میں نوابزادہ امان اللہ زہری،انکے نواسے اور ساتھیوں کے قتل کے خلاف احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہی جلسے سے پارٹی کے مرکزی رہنماوں سینیٹرڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی،رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ،سردارنصیراحمد موسیانی،امان اللہ زہری کے فرزند نوابزادہ شہریار زہری،بی ایس او کے چیئرمین نذیر بلوچ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ سرداراختر جان مینگل نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے گلہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے بلوچستان کا اسلام آباد میں سودا کیا ہے سوداگروں کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں آئیں بتائیں کہ ہم نے کیا سودا کیا ہے کیا لاشیں اٹھانا سودا ہے اگر چار ووٹوں کے بدلے ایک ماں کی آنکھوں سے آنسو رک جائیں تو ایسا سودا میں ہمیشہ کروں گا ہم نے بلوچستان کی ترقی یہاں کے عوام کے ننگ و ناموس کے لئے آواز بلند کی اگر یہ سودا ہے تو یہ سودا میں نے اور میرے باپ نے بھی کیا ہے اور میری اولادیں بھی کریں گی ہم نے اپنا ضمیر نہیں بیچا۔انہوں نے کہا کہ چند ٹکوں کے بھاؤ وزارتوں کے عوض بکنے والوں نے بلوچستان کی ننگ و ناموس کا سودا کیا وزارتیں اعلیٰ کے عوض لوگوں نے اپنی مونچھیں تک منڈوا دیں چاہتا تو میں بھی وزیراعلیٰ بن سکتا تھا

وفاق میں وزارتیں لے سکتے تھے صوبے میں ہمارے 10ارکان اسمبلی میں سے کچھ وزیر بن جاتے جو موجودہ حکومت میں شامل وزراء سے اچھی اردو تو بول سکتے ہیں اور پڑھے لکھے بھی ہیں سودے کا طعنہ دینے والے اپنا اور ہمارا سودا دیکھ لیں کہ کس کا سودا عزت اور کس کانہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ قبائل انکے سر پر دستار باندھتے ہیں جو انکی عزت،ننگ و ناموس کی حفاظت کے لائق ہوں نہ صرف یہ بلکہ دوسرے اور ہمسایہ قبائل کی بھی ننگ و ناموس کی حفاظت کے قابل ہوں اگر یہ چیزیں نہ ہوں اگر کسی میں یہ اہلیت نہ ہو تو پھر یہ سمجھا جائے کہ یہ دستار کسی مٹکے کے اوپر رکھ دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے ساتھ ہم نے 6نکات پر معاہدہ کیا ہے میں یہ نہیں کہوں گاکہ اس میں مکمل کامیاب ہوئے ابھی ایک سال کا عرصہ گزرا ہے اور400لاپتہ افراد گھروں کو پہنچ چکے ہیں اب بھی میں مطمئن نہیں میرے کانوں میں آج بھی ماؤں اور بہنوں کی آوازیں گونج رہی ہیں یہ ہماری ذمہ داری بنتی تھی کہ ہم اپنے عوام کے لئے کام کریں اورانکے تحفظ کو یقینی بنائیں لیکن 400گھروں میں خوشی واپس آئی ہے میں اسکے بدلے وزیراعلیٰ،وزیر بن سکتا تھا لیکن میں نے عوام اور صوبے کے مفاد کو ذاتی مفادات پرترجیح دی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ اور موجودہ حکمرانوں نے صوبے کو دیمک کی طرح چاٹا ساحل و وسائل،معدنیات سے مالامال صوبے کے

لوگ آج خطے کے غریب ترین لوگ ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ لوگ امیر ترین ہوتے لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے لوگ علاج کیلئے سرکاری کی بجائے پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاتے ہیں بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں سول سیکرٹریٹ میں نوکریاں آلو اور ٹنڈوں کی طرح فروخت ہورہی ہیں وزیراعلیٰ ہاؤس اورسیکرٹریٹ میں ملازمتوں کی بولیاں لگ رہی ہیں ایک ڈرائیور کی آسامی کیلئے بھی 4لاکھ روپے مانگے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زہری کا واقعہ سیاسی قتل ہے اگر اسے کوئی قبائلی رنجش کا نام دیتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے نواب امان اللہ زہری کے ساتھ 1988ء سے رفاقت تھی جب بی این پی تقسیم ہوئی اور ہمیں دولخت کیا گیا

ان پر بہت دباؤ ڈالا اور لالچ کے تحت انہیں ہم سے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہمیں توڑنے والے ناکام ہوگئے جبکہ امان اللہ زہری انکے فرزندکامیاب ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ فرسودہ نظام اور ظلم کا بازار گرم کرنے والوں کی آنکھوں میں نوا ب امان اللہ زہری کھٹکتے تھے بی این پی کو زہری میں کامیاب جلسوں کے بعد دھمکیاں بھی ملتی تھیں 2002ء میں جب پہلی بار پارٹی کا صدر منتخب ہوا تو میں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ہمارے کفن پر بھی بی این پی کا جھنڈا ہوگا جسے دوستوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ اگر ہم زندہ ہیں تو تب بھی یہ پرچم لہرائیں گے اور جس دن مریں گے ہمارے کفن پر بھی یہ پرچم ہوگا۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ نواب امان اللہ زہری اورانکے ساتھیوں کا قتل سیاسی ہے

انہیں گزشتہ حکومت کے خلاف جو عدم اعتمادلانے کے بدلے اور 2018ء کے انتخابات میں مخالفین کو زہری سے ووٹ نہ ملنے کے بدلے شہید کیا گیا اب اس قتل کو قبائلی رنگ دیا جارہا ہے آج کا جلسہ مطالبہ کرتا ہے کہ نواب امان زہری اورانکے ساتھیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے علاقائی جنگیں کروائیں قبائلی جھگڑے اور لسانی طور پر لڑایا ہمیں فرقوں میں تقسیم کیا گیا انکا مقصد یہی رہا ہے کہ ہم جھگڑوں میں الجھے رہیں اور حکمران ہماری سرزمین کو لوٹ کر اسے نیلام کرکے عیاش و عشرت کی زندگی گزاریں ہرجھگڑے کے پیروں کے نشانات حکمرانوں کی دہلیز پر پہنچتے ہیں

وہ جماعتیں جنہوں نے صوبے کے حقوق کے حصول کی جدوجہد کا راستہ اپنا یا انہیں اس راستے سے ہٹانے کیلئے قبائلی تنازعات کا سہرا لیاجاتارہا ہے ہمیں معلوم ہے کہ تمام واقعات میں قبائلیت کا سہارا لیا گیا لیکن ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ وہ گولیاں کہاں بنتی رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مایوسی،نفرتیں پھیلانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے گئے آج کا جم غفیر ان تمام سازشوں کے منہ پرطمانچہ ہے جس کا درد وہ سات پشتوں  تک یاد رکھیں گے ہمیں جمہوری سیاست سے روکنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے رہے ہیں پہلے نیپ کی حکومت ختم کی گئی اور آپریشن کئے گئے آفرین ہے ایسی قوم پر جس نے پانچ ملٹری آپریشن اور ہزاروں لاشوں کے باوجود

بلوچستان کا نام بلند کیا ہے1998ء میں ہماری حکومت ختم کرنے کیلئے سازشیں کی گئی بی این پی بننے کے ایک سال بعد اسے دولخت کیا گیا سازشی عناصر جنہوں نے پارٹی کو تقسیم کیا آج وہ خود اتنے ٹکڑوں میں بٹے ہیں جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا لیکن بی این پی کو کوئی ختم نہیں کرسکتابی این پی صرف سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک سیاسی سوچ،فکر،نظریے،جدوجہد کا نام ہے اور نظریے کو ایٹم بم بھی ختم نہیں کرسکتا بی این پی کا نظریہ بلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں پھیل چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2002ء سے لیکر آج تک ہمارے کارکن شہید ہورہے ہیں ہمارے بازو کاٹ کر حکمران سمجھتے تھے کہ ہم اپاہج ہوجائیں گے لیکن آج بھی بی این پی جلسوں سے لیکر ایوان تک بلوچستان کا نعرہ لگارہی ہے

ہمارے شہید اکابرین اور کارکنوں کو ہم سے جدا کیا گیا کئی ساتھی آج بھی لاپتہ ہیں لیکن ہم اپنی جدوجہد سے نہ پیچھے ہٹے تھے اور نہ ہٹیں گے۔انہوں نے کہا کہ بی این پی قومی جمہوری پارٹی ہے ہم اس لشکر کا حصہ ہیں جو بلوچستان کے حقوق کے حصول،ساحل و وسائل پر دسترس کے حصول تک جدوجہد جاری رکھے گامجھے آپ نے اس لشکر کا سپہ سالار بنایا ہے یہ میری ذمہ د اری ہے کہ اپنے کارکنوں اور انکے خاندانوں کی عزت،جان و مال کا تحفظ کروں اوراسکے لئے مجھے اپنی یا اپنی اولاد کی بھی قربانی دینی پڑی تو اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔سرداراختر مینگل نے کہا کہ یہاں ان قوتوں کو آگے آنے نہیں دیا جاتا جو قوم،وطن،عوام کے حقوق کی بات کریں پہلے والے لوگ اپنے دامن سے بوٹ پالش کرتے تھے

آج کل چاپلوسی کرنے والوں کو آگے لایاجاتا ہے کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم نے مرکز میں حمایت کے بدلے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں یا قومی حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد سے پیچھے ہٹ جائیں گے ہم نے پہلے بھی قومی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے آئندہ بھی کریں گے مرکزی حکومت کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ چھ نکات پر عملدرآمد میں دیر نہ کرے اگر وہ ان نکات پر عملدرآمد نہیں کرسکتے تو جواب دیدیں ہم وہ نہیں جو چٹنی پر گزار کریں گے ہم بھیک نہیں حقوق مانگ رہے ہیں ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ ”ساڈا حق ایتھے رکھ“ہم نے پہلے بھی حکومتوں کو چھوڑا ہے جتنا جلدی ہوسکے ہمیں ساتھ لیکرچلیں ہمیں کان سے نہ گھیسیٹیں ہم انکے ساتھ آنے والے نہیں آج بلوچستان کے عوام نے اندھوں کو دیکھنے اور بہروں کو سننے پر مجبور کردیا ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…