کراچی(این این آئی)پاک چین اقتصادی راہداری کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد بیجنگ سے آمدنی میں کمی ہوئی، جس کے باعث ملک میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 50فیصد سے کم ہو کر 4سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے اعداد و شمار ایسے وقت میں سامنے آئے جب حکومت بڑی مالی اور مالیاتی ضروریات، کمزور اور غیرمتوازن ترقی کے سخت اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔
سی پیک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے باعث ملک میں سب سے بڑے سرمایہ کار چین سے مالی سال 2017-18کے 2 ارب ڈالر کے مقابلے میں سرمایہ کاری کم ہو کر2018-19کے دوران 54 کروڑ ڈالر رہی۔دوسری جانب اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا سے 2017-18کے دوران 15 کروڑ 50 لاکھ ڈالر آئے جبکہ 2018-19کے دوران 57کروڑ 50 لاکھ ڈالر واپس گئے کیونکہ گزشتہ سال اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے۔اسی طرح اس عرصے میں برطانیہ سے سرمایہ کاری میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی اور یہ 2017-18کے 21کروڑ 20لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 23 کروڑ ڈالر رہے، تاہم دیگر ممالک جاپان سے 11کروڑ 80 لاکھ ڈالر، ناروے سے 11 کروڑ 50 لاکھ ڈالر، یو اے ای سے 10 کروڑ 18 لاکھ ڈالر اور ترکی سے 7 کروڑ 37 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔علاوہ ازیں شعبے کے لحاظ سے سرمایہ کاری دیکھیں تو تعمیراتی شعبے میں 42 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی متوجہ سرمایہ کاری ہوئی۔گزشتہ مالی سال کے دوران سب سے زیادہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری تیل وگیس کی تلاش کے شعبہ میں کی گئی جبکہ مالیات کا شعبہ دوسرے نمبر پر رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمارکے مطابق گزشتہ مالی سال تیل وگیس کی تلاش کے شعبہ میں 308.8 ملین ڈالرکی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)کی گئی ہے اور مالیات کے شعبہ میں ایف ڈی آئی کا حجم286.5 ملین ڈالر رہا ہے۔ا سٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے حاصل ہونے والے 453.2 ملین ڈالر کے منافع جات کی بیرون ملک منتقلی کی گئی ہے جو مالی سال 2017-18کے دوران 769.8 ملین ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی۔