اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی کے بعد سینٹ کا اجلاس بھی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا،جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن اور سینیٹر جاوید عباسی نے وزیر اعظم پر شدید تنقید پر حکومتی ارکان برہم ہوگئے،مولانا عطاء الرحمن نے کہا ہے کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم نے ریاست مدینہ میں اپنی تقریر میں صحابہ کی توہین کی ہے،میں آئی ایم ایف کے بجٹ پر لعنت بھجتا ہوں،اگر وزیر اعظم صحابہ کے نام تہذیب سے نہیں لیتے اس وزیر اعظم کانام بھی تہذیب سے نہیں لیتا
جس پرقائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ مولانا صاحب تقریر ضرور کریں،ہم آپ کے فتوے سننے کیلئے تیار نہیں،آپ مذہب کے ٹھیکیدار نہ بنیں کدھر ہے شیری رحمن،کہاں ہیں رضا ربانی؟،آج بھٹو اپنی قبر میں تڑپ رہے ہوں گے،مولانا کی تقریرکو نفرت انگیر تقریر کے زمرے میں لیا جائے،اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے اقلیتی سینیٹر جان کینتھ ولیم نے ”جئے بھٹو“کے نعرے لگا دیئے،شور شرابے کی وجہ سے ڈپٹی چیئرمین نے اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کر دیاوقفے کے بعد بجٹ پر بحث کا دوبارہ شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہر مند تنگی کے تقریر کے دوران مولانا عطالرحمن نے پھر شور شرابہ کیا اور ڈپٹی سپیکر سے تقریر پوری کرنے کا موقع دینے کا مطالبہ کیا، حکومتی ارکان نے کہاایک شخص کو ایوان کی کارروائی بلڈوز کرنے نہیں دیں گے،ان کو ایوان سے نکالا جائے،شد ید شورشرابہ کی وجہ سے ڈپٹی چیئرمین نے سینیٹ کا اجلاس (آج)تک ملتوی کر دیا گیا۔ منگل کوسینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین محمد سلیم مانڈی والا کی زیر صدارت ہوا جس میں وفاقی بجٹ 20-2019 پر بحث کی گئی۔وفاقی وزیرپارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سینیٹر اسد جونیجو کی کمر اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے بجٹ سے نہیں توٹی تو پی ٹی آئی حکومت کی بجٹ سے بھی نہیں ٹوٹے گی۔انہوں نے کہاکہ قرضوں کی وجہ سے بین الاقوامی فورم پر سر شرم سے جھک جاتا ہے،ملک کو چار ہزار ارب سود کی مد میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اعتراف کرتا ہوں کہ ملک کی معیشت کو بحران کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ
وزیر اعظم نے اپنے اخراجات میں چالیس فیصد تک کمی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملکی مخدوش معیشت کی وجہ سے وزیر اعظم نے اپنے گھرکی سڑک کو اپنے جیب سے بنایا۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس ملک کو دوالیہ نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ نہ کہیں کہ ڈالر 157 تک پہنچ گیا،اس سے ملک کی تباہی ہو گی،2008میں 6690ارب کا قرضہ تھا،2018میں 30848ارب روپے کا قرضہ ہمیں ورثے میں ملا،معیشت کی تباہی پر کچھ خاندانوں کو جیل میں جانا پڑیگا۔ انہوں نے کہاکہ
قرضہ لینے پر جواب ہم سے مانگا جا رہا ہے،آپ کے لئے گئے قرضوں کوادا کرنے کیلئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 220ملین میں سے صرف 2بلین لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں،اس میں سے 6لاکھ تنخواہ دار طبقہ ہیں،ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ چیئرمین ایف بی آر میں ایف بی آر میں ریفارمز لانے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ٹیکسٹال سیکٹر کو سبسڈی دینے کا مقصد بیرون ملک کی بجائے ملک کے اندر اشیاء کی فراہمی تھا،کچھ لوگوں نے گھی کیبڑے بڑے بنائے اور
اس کا تحفظ کرنے کیلئے میڈیا ہاؤسز بنائے،این ایف سی کے 2600ارب وفاق کے پاس جس سے 2000ارب پچھلے قرضوں کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پچھلی حکومتوں کے لیے قرضوں سے ملک کو کیا فائدہ ہوا،وزیر اعظم کے ماتحت کمیشن میں جتنے قرضے لئے اس میں کس نے کتنا لیا سارا خاکہ سامنے آئے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں بلا تفریق ٹیکس جمع کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح وزیر اعظم اور مسلح افواج نے قربانی دیں ہیں،ہمیں بھی قربانی دینا ہوں گی۔
مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر محمد جاوید عباسی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکومت نے دو مرتبہ ضمنی بجٹ پیش کئے،حکومت نے دعوی کیا تھا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ عوامی امنگوں کا عکاس ہو گا،یہ بجٹ پاکستان کی تاریخ کا انوکھا بجٹ ہے،پہلے چاہے جمہوری حکومتوں کے بجٹ ہوں یا آمرانہ حکومتوں کے،بجٹ تیار کرنے والوں کا تعلق پاکستان سے تھا،موجودہ بجٹ کو آئی ایم ایف کی ٹیم نے بنایا،تیار کسی اور نے کیا اور پیش کسی اور نے کیا،حماد اظہر کو بجٹ پیش کرنے سے پہلے
ایک بھی ڈاکومنٹ نہیں دکھایا گیا۔ انہوں نے کہاکہ عوام کیلئے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں،حکومت نے بجٹ سے پہلے گیس،ادویات اور دیگراشیاء کی قیمتیں بڑھائیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں اس سے پہلے اتنا اضافہ کبھی نہیں ہوا،پاکستان میں بجٹ کے بعد لوگ جھولی اٹھا اٹھاکر حکومت کیلئے بددعائیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں 40فیصد کا کٹ لگایا گیا،صحت کے شعبے میں یورپ جیسی سہولیات دینے کے دعوے کرتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ جب ساری قوم سو گئی اس وقت وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم کی تقریر کو میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا۔ انہوں نے کہاکہ کوئی کمیشن بنے گا اور نہ ہی انکوائری ہو گی،وزیر اعظم کہا کرتے تھے کہ جب حکمران باہر قرضے مانگنے جاتے ہیں تو قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف نے آٹھ ماہ سے اپنی ٹیم بٹھائی اور پیسے اب بھی نہیں دیئے۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف جے کہنے پر اسد عمر کو ہٹایا گیا،
وزیراعظم نے غربت کے خاتمے کیلئے انڈے اور مرغی پالنے کا شوشہ چھوڑا۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان نے ڈیم بنانے کا شوشہ چھوڑ کر ثاقب نثار کی آخرت کوبرباد کیا۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان اور ثاقب نثار سے ڈیم فنڈز کے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم نے تاریخ کا سب سے بڑا شوشہ چھوڑا کہ پاکستان میں تیل کے ڈخائر مل گئے ہیں،وزیر اعظم نے کہا کہ ہم تیل کے شعبے میں سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ سینیٹر جاوید عباسی کی جانب سے
وزیر اعظم پر طنز کے نشترچلاتے ہوئے پی ٹی آئی کے ارکان آپے سے باہر ہو گئے،ڈپی سپیکر سے ان کی تقریر رکوانے کامطالبہ کیا۔ ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کہاکہ ڈپٹی چیئرمین صاحب،ہمیں بھی اتنا ہی وقت دیں،اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق کی مداخلت پر جاوید عباسی نے تقریر کو سمیٹا۔ راجہ ظفر الحق نے کہاکہ جاوید عباسی صاحب،تقریر کو اختتام کریں،تیل کی باتیں سن کر حکومتی ارکان کا تیل نکل رہے ہیں۔جے یو آئی ایف کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ
سلیکٹڈ وزیر اعظم نے ریاست مدینہ میں اپنی تقریر میں صحابہ کی توہین کی ہے،میں آئی ایم ایف کے بجٹ پر لعنت بھجتا ہوں،اگر وزیر اعظم صحابہ کے نام تہذیب سے نہیں لیتے اس وزیر اعظم کانام بھی تہذیب سے نہیں لیتا۔انہوں نے کہاکہ ایسے وزیر اعظم کونہیں مانتا جو صحابہ کو”ڈرگئے“اورمال غنیمت کو”لوٹ مار کامال“قرار دیں۔ ڈپٹی چیئرمین نے مولانا عطالرحمان کے وزیراعظم سے متعلق ریمارکس حذف کرادئے۔سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ مولانا صاحب تقریر ضرور کریں،
ہم آپ کے فتوے سننے کیلئے تیار نہیں،آپ مذہب کے ٹھیکیدار نہ بنیں۔شبلی فراز نے کہاکہ ہم اسلام کو بیچنے نہیں دیں گے،یہ کس حیثیت سے فتوے دے رہے ہیں۔شبلی فراز نے کہاکہ ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں،اس لئے لوگوں کواشتعال دلا رہے ہیں،کدھر ہے پی پی پی،؟کیا نظریات سے پیچھے ہٹ گئی؟۔شبلی فراز نے کہاکہ کدھر ہے شیری رحمن،کہاں ہیں رضا ربانی؟۔شبلی فراز نے کہاکہ یہی وہ لوگ ہے جو مذہب کو بیچتے ہیں،مولانا کی تقریرکو نفرت انگیر تقریر کے زمرے میں لیا جائے۔
شبلی فراز نے کہاکہ ہم نے سب کی تقریر کو اطمینان سے سنا،کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کی،آج پیپلز پارٹی کے رویے پر افسوس ہوا۔شبلی فراز نے کہاکہ آج بھٹو اپنی قبر میں تڑپ رہے ہوں گے۔انوارالحق کاکڑ نے قائد ایوان کی نشست پر آکر مولانا عطالرحمن کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ سب صحابہ کی عزت کرتے ہیں،توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے اقلیتی سینیٹر جان کینتھ ولیم نے ”جئے بھٹو“کے نعرے لگا دیئے،شور شرابے کی وجہ سے
ڈپٹی چیئرمین نے اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کر دیاوقفے کے بعد بجٹ پر بحث کا دوبارہ شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرمند تنگی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اس بجٹ میں غریبوں پر چودہ ارب کامزیدٹیکس لگایا گیا،وزیر اعظم نے کہا تھا کہ آصف علی زردری اور نواز شریف ٹیکس نہیں دیتے۔ سینیٹر بہر مند تنگی کے تقریر کے دوران مولانا عطالرحمن نے پھر شور شرابہ کیا اور ڈپٹی سپیکر سے تقریر پوری کرنے کا موقع دینے کا مطالبہ کیا۔ حکومتی ارکان نے کہاکہ ایک شخص کو ایوان کی کارروائی بلڈوز کرنے نہیں دیں گے،ان کو ایوان سے نکالا جائے۔شد ید شورشرابہ کی وجہ سے ڈپٹی چیئرمین نے سینیٹ کا اجلاس (آج)بدھ کی دوپہر ساڑھے بجے تک ملتوی کر دیا گیا