اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس غیر شفاف طریقے سے دائر اور غیر شفاف انداز میں پیش کیا گیا،احتساب کے عمل میں سب سے اہم چیز شفافیت ہے،کسی بھی جج کے خلاف کوڈ ا?ف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی پر ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہیاور اس کی کارروائی کا طریقہ کار سپریم جوڈیشل کونسل کے ضوابط میں درج ہے،سرکار سے پلاٹ یا دیگر مراعات وصول کرنا ججز کا استحقاق نہیں،
ججز نہ تو سرکاری ملازم ہیں اور نہ ہی سرکاری وفا دار۔میڈیا رپورٹس کے مطابق معروف وکلا عمر گیلانی ایڈووکیٹ اور عادل چٹھہ ایڈووکیٹ سے کی جانے والی ویڈیو گفتگو میں جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اب تک جو اطلاعات منظرِ عام پر آئی اور اخبارات میں چھپی ہیں ان کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس غیر شفاف طریقے سے دائر اور غیر شفاف انداز میں اسے پیش کیا گیا، سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس موجودہ ریفرنس سے پہلے تقریباً 300 ریفرنس درج ہیں،آخرکیا وجہ ہے کہ ایک ریفرنس جو ابھی دائر ہوا ہے، اْسے اس ماہ کی 14 تاریخ کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے دائر ہونے والے ریفرنسز کی کسی کو کوئی خبر نہیں؟میری رائے میں صرف یہ ایک عمل سپریم جوڈیشل کونسل کی کارکردگی کو مشکوک بنانے کیلئے کافی ہے،میں نے جنوری 2019 میں سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے جانے والے اپنے خط میں کونسل کو باور کرایا تھا کہ عدلیہ کا احتساب مستحسن قدم مگر اسے غیر شفاف طریقے سے نہیں ہونا چاہیے ورنہ پورے ملک میں تشویش پھیلے گی،اگر سپریم جوڈیشل کونسل بغیر کسی ترتیب کے ریفرنس کی سماعت کرتی ہے تو ایسے طرزِ عمل سے اس ادارے کی ساکھ مجروح ہو گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے تقریبا دو سال قبل سپریم جوڈیشل کونسل سے باضابطہ طور پر ریفرنس کی ڈائری، اس کی سماعت اور ان کے فیصلوں کے حوالے سے تفصیلات مانگیں تھیں مگر سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ معلومات دینے سے انکار کر دیا تھا، اس لیے آج بھی کسی کو حتمی طور پر یہ معلوم نہیں کہ
اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں کتنے ریفرنس زیر التوا اور کتنے ریفرنس ہیں جن کے فیصلے ہو چکے ہیں، اب ظاہر ہے کہ ایسے احتسابی عمل کو شفاف کیسے کہاجا سکتا ہے؟۔جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کا ججز کے ضابطہ اخلاق کے بارے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ضابطے کے آرٹیکل 2 کے مطابق جج کو خدا ترس اور صاف گو،حرص اور لالچ سے پاک ہونا چاہیے، جج کو کسی بھی پبلک فورم پر اپنی خود نمائی کے لیے تقریروں سے پرہیز کرنا چاہیے اور
خاص طور پر متنازعہ امور پر عدالت سے باہر بیان بازی نہیں کرنی چاہیے،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پچھلے دو سالوں میں اس ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہوئی مگر سپریم جوڈیشل کونسل اس مسئلے پر خاموش رہی،میری رائے میں عدالتی کارروائی کو انگریزی میں چلانا بھی آئین کے آرٹیکل 251 کی صریح خلاف ورزی ہے،اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ موجود ہے،اس کی خلاف ورزی بھی حلف شکنی اور مس کنڈیکٹ کے زمرے میں آتی ہے،
اس طرف کسی کی توجہ نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سرکار سے پلاٹ یا دیگر مراعات وصول کرنا ججز کا استحقاق نہیں ہے، نہ تو ججز سرکاری ملازم ہیں اور نہ ہی سرکاری وفا دار،ان کا سرکار سے پلاٹ تحفتاً یا کوڑیوں کے دام وصول کرنا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، بہت سے جج صاحبان ایسے ہیں جنھوں نے اپنے عہدے کی بنا پر پلاٹ حاصل کیے،سپریم جوڈیشل کونسل کو اس معاملہ کا نوٹس لینا چاہیے۔