اسلام آ باد/کراچی(آن لائن) سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں 2 ججز کے خلاف ریفرنسز پر ہونے والا پہلا اجلاس ختم ہوگیا اس موقع پر پاکستان بار کونسل سمیت دیگر وکلاء تنظیموں کی طرف سے ریفرنسز کی سماعت کے موقع پر دی گئی ہڑتال اور دھرنوں کی کالیں علامتی ہی ثابت ہوئیں اور وکلاء تنظیمیں کارروائی میں خلل ڈالنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز جوڈیشل اکیڈمی جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر کردہ حکومتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی محمد شیخ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل کے 5 اراکین سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کریم خان آغا کے خلاف برطانیہ میں مبینہ طور پر جائیدادیں رکھنے سے متعلق ریفرنسز کی سماعت کرنے والوں میں شامل تھے۔ اجلاس تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی ابتدائی کارروائی میں ریفرنسز کے قابل سماعت ہونے کا جائزہ لیا گیا جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور خان ریفرنس کے حوالے سے حکومتی موقف سے آگاہ کیا۔ تاہم بند کمرہ اجلاس کی کارروائی کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔دوسری جانب عدالت عظمیٰ سمیت ماتحت عدالتوں میں وکلاء تنظیمیں خلل دالنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ معمول کے دونوں میں ایک دوسرے کے دست و گریباں رہنے والے وکلاء رہنماؤں کی طرف سے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جہاں ایک طرف یکجہتی کے علامتی مظاہرہ دیکھنے کو ملا وہیں دوسری طرف یہی وکلاء تنظیمیں اور رہنماء اپنے پیٹی بھائیوں کو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے بابت راضی کرنے میں واضح طور پر ناکام دکھائی دیئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنزانی کی طرف سے بھی معزز ججز کے خلاف دائر ریفرنس کی کاپیاں جلانے کا علامتی ڈرامہ تو کیا گیا تاہم وکلاء تنظیمیں سابقہ کے عملی اقدامات کے برعکس معمول کی عدالتی کارروائی رکوانے میں ناکام رہے۔
اپنی ناکامی کا وکلاء عہدیداران جن میں علی احمد علی کرد نمایاں ہیں اظہار بھی کرتے پائے گئے۔ میڈیا نمائندگان سے گفتگو کے دوران علی احمد کرد نے عدالتی کارروائی کا حصہ بننے والے وکلاء کو ذومعنی الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے پیغام دیا کہ تنبیہہ کرنا ان کی ڈیوٹی تھی عدالت میں پیش ہونا نہ ہونا ہر وکیل کا اپنا حق ہے۔ انہوں نے برملا اظہارکیا کہ ان کے پیٹی بھائیوں ہی کی طرف سے تحریک کو ناکام بنانے کی عملی کوششیں ہورہی ہیں۔ سابقہ چیئرمین سینیٹ بھی اپنا سیاسی بغض نکالنے کیلئے چند لمحوں کیلئے عدالت عظمیٰ کے احاطے میں کالے کوٹ میں نمودار ہوئے
اور منتخب وزیراعظم کی طرف سے منصف کے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے احتساب کے عمل کوآمر کی باقیات قرار دے کر چلتے بنے۔یاد رہے ان ریفرنسز کے خلافسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر امان اللہ کنرانی کی طرف سے ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس پر وکلاء برادری تقسیم ہوگئی اور ہڑتال کی کال اثر دکھانے میں ناکام رہی ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر امان اللہ کنرانی نے سپریم کورٹ کے باہر ریفرنسز کی کاپیاں جلانے کا اعلان کیا تھا جبکہ وکلا برادری کے ایک حصے کی جانب سے پاکستان بار کونسل (پی بی سی) اور سپریم کورٹ بار کونسل کی کال پر ملک بھر میں ہڑتال کا کہا گیا تھا جبکہ دیگر وکلاء کی جانب سے ہڑتال سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ۔اپنے اعلان پر سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر ایس سی بی اے کے صدر امان اللہ کنرانی سمیت دیگر چند وکلا نے ججز کے خلاف ریفرنس کی علامتی نقل کو آگ لگا ئی،
مختلف بارز کے احتجاجی بینرز بھی آویزاں کئے گئے، وکلا برادری کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لیا جائے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد عدلیہ کی آزادی کے لیے ہے،?پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اتحاد سب دیکھ سکتے ہیں، انہوں نے دعوی کیا کہ آج پورے پاکستان کے وکلاء نے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل نے ایکشن کمیٹی بنائی ہے، ہم سب اس کے فیصلوں کے پابند ہوں گے۔ ادھر کراچی سٹی کورٹ کے وکلا کے ایک دھڑے کی جانب سے عدالتوں کی تالا بندی کی گئی جس پر دوسرے دھڑے نے تالے توڑ دئیے۔ اسی طرح لاہور ہائیکورٹ میں معمول کے مطابق کام جاری رہا اور وکلا مختلف عدالتوں میں پیش بھی ہوئے۔ پنجاب بارکونسل نے وکلا کی ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ لاہور ہائیکورٹ بار، لاہور بار اور پنجاب کونسل نے گزشتہ روز ہی ہڑتال سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔کوئٹہ،پشاور میں بھی وکلاء ہڑتال کی کال پر تقسیم نظر آئے اور جزوی ہڑتال کی گئی۔