اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے تجاوزات کیس میں چیئرمین این ایچ اے اور میئر اسلام آباد پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائی ویز اور موٹر ویز پر ہر حادثے کا ذمہ دار چیئرمین ہے،قائمقام چیئرمین سی ڈی اے تجاوزات کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد پیش ہوں جبکہ عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد کے پھیلاؤ کو روکنے اور نئے سیکٹرز کے قیام سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ
میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کے 11 ہزار 5سو ملازمین کچھ نہیں کرتے، اسلام آباد شہر بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ منگل کو قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اسلام آباد تجاوزات کیس کی سماعت کی۔دور ان سماعت نے چیئرمین این ایچ اے اور میئر اسلام آباد پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ نے ہائی ویز اور موٹر ویز پر ہر حادثے کا ذمہ دار چیئرمین این ایچ اے کو قرار دیدیا۔ عدالت نے کہاکہ حادثات کے دوران ہونے والے ہر جانی و مالی نقصان کے ذمہ دار چیئرمین این ایچ اے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ کارروائی سے پہلے چیئرمین این ایچ اے کو غلطی سدھارنے کا موقع دیتے ہیں۔دور ان سماعت سپریم کورٹ میں صفا گولڈ مال ہسپتال کی زمین پر بنائے جانے کا انکشاف ہوا جس پر عدالت نے ایک ماہ میں صفا گولڈ مال کی زمین اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ شفاء انٹرنیشنل کی جانب سے قائم تجاوزات کا جائزہ لیا جائے۔ عدالت نے کہاکہ شفاء انٹرنیشنل نے تجاوزات قائم کی ہیں تو مسمار کی جائیں۔عدالت نے اسلام آباد میں گرین بیلٹس کو توسیع دینے کی ہدایت کرتے ہوئے عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو طلب کر لیا۔عدالت نے اسلام آباد کے پھیلاؤ کو روکنے اور نئے سیکٹرز کے قیام سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرلی۔ عدالت نے کہاکہ میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کے 11 ہزار 5سو ملازمین کچھ نہیں کرتے۔ عدالت نے کہاکہ اسلام آباد شہر بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پمز کے سامنے شاپنگ مال کی سرکاری زمین پر قائم پارکنگ واگزار کرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہاکہ قائمقام چیئرمین سی ڈی اے تجاوزات کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ عدالت نے میونسپل کارپوریشن، سی ڈی اے اور این ایچ اے کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تینوں اداروں کے سربراہان کو آئندہ سماعت پر بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اسلام آباد تباہ شدہ شہر ہے۔ قائمقام چیف جسٹس نے
میٹرو بس منصوبے پر بھی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ سڑک کے درمیان میں بس چلا کر کونسا تیر مارا ہے؟۔قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ بس سائڈ پر بھی چلاتے تو اربوں روپے کی بچت ہو سکتی تھی۔قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ کیوں نہ چیئرمین این ایچ اے کا کیس نیب کو بھجوائیں، این ایچ اے افسران کی ناک سے کرپشن کا پیسہ نکلوائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر ہائی وے پر آٹھ سال سے دیکھ رہا ہوں کام ہو رہا ہے، کشمیر ہائی وے پر لگتا ہے کسی کا مستقل روزگار لگا ہوا ہے۔
قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ میئر صاحب کیا آپکو شہر کی تعریف بھی آتی ہے؟ عوامی مرکز کی جلی ہوئی بلڈنگ کیوں سجا رکھی ہے؟۔قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ ایم سی آئی کے گیارہ ہزار سے زائد ملازمین بھی کچھ نہیں کر رہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ لگتا ہے جو بھی کرے گا اللہ ہی کرے گا۔ قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ این ایچ نے کراچی حیدرآباد موٹروے نہ بناتا تو مہربانی ہوتی، این ایچ اے نے بحریہ ٹاؤن کیلئے سڑک کیوں کھود رکھی ہے؟۔قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ
کس کے حکم پر بحریہ ٹاؤن کیلئے کھدائی کی گئی ہے؟ سڑکوں کی ناقص منصوبہ بندی ہی حادثات کا باعث بنتی ہے، ملک بھر میں ہائی ویز کا محکمہ بالکل فارغ ہے۔ قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ این ایچ اے بہت کرپٹ ادارہ ہے، جامشورو روڈ پر روزانہ سینکڑوں لوگ حادثات میں مرتے ہیں۔قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ اسلام آباد میں اپارٹمنٹس نہیں گھر بنائیں، اپارٹمنٹس بن جاتے ہیں لیکن انکی تزئین و آرائش نہیں ہوتی۔قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ اپارٹمنٹس بنانے سے
کراچی شہر کی بھی شکل بگڑ گئی، میئر صاحب بتائیں آپ نے کیا کرنا ہے؟۔ میر اسلام آباد نے کہاکہ جو عدالت حکم دے گی وہی کرینگے، کیا عدالت آپکے اوپر میئر لگی ہوئے ہے؟۔قائمقام چیف جسٹس نے کہاکہ میٹرو بس چلانی تھی تو چلاتے اتنے پیسے کیوں خرچ کیے، اتنے بڑے سٹیشنز اور پْل بنانے کی کیا ضرورت تھی؟۔عدالت نے این ایچ اے، ایم سی آئی، سی ڈی اے سے پیشرفت رپورٹس طلب لی۔کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی گئی۔