اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ججز کے خلاف ریفرنس پر وزارت قانون اور ایسٹس ریکوری یونٹ کا مشترکہ بیان سامنے آ گیا، ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق ججوں سے متعلق معاملہ 1973ء کے رولز آف بزنس کے تحت وزرات قانون و انصاف کا دائرہ اختیار ہے،
ججوں کی جائیدادوں سے متعلق شکایت پر کارروائی کے لیے معاملہ وزارت قانون کو بھجوایا گیا، وزارت قانون نے شکایت پرتصدیق کے لیے ایسٹس یونٹ کو یہ معاملہ بھجوایا، ایسٹس ریکوری یونٹ کو تین معزز ججز کی بیرون ملک جائیدادوں کی اطلاع ملی تھی، وزارت قانون نے ایسٹس ریکوری یونٹ کو شکایت میں درج معاملے کی تصدیق کی ہدایت کی، ایسٹس ریکوری یونٹ نے تصدیق کے لیے ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے سے مل کر معلومات اکٹھی کیں، واضح رہے کہ کارروائی صرف تصدیق شدہ اطلاعات پر ہی ہو سکتی ہے، ججز کی جائیدادوں کی رجسٹریاں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن سے نوٹرائز اور تصدیق شدہ ہیں، اگر صدر یا وزیراعظم اگر اس معاملے پر کارروائی نہ کرتے تو آرٹیکل 209 کے تحت اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ یہ اطلاعات ملنے پر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھا گیا، ترجمان وزارت قانون کا کہنا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کوئی نیا ریفرنس دائر نہیں ہو رہا ہے۔ ترجمان وزارت قانون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کوئی نیا ریفرنس دائر نہیں ہو رہا، کچھ اخبارات میں چھپنے والی خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، من گھڑت خبروں کے ذریعے متنازع صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 2ججز کے خلاف بیرون ملک جائیدادیں رکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ وزارت قانون اور ایسٹس ریکوری یونٹ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ صدر، وزیراعظم، وزارت قانون اور ایسٹس ریکوری یونٹ آئین و قانون اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔