اسلام آباد (این این آئی) سینٹ میں اپوزیشن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے فیصلہ کن قوتوں کو نواز شریف اور زرداری قبول نہ ہونے کے بیان پر وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ فیصلہ کن قوتیں کون سی ہیں ، ہم تو عوام کو فیصلہ کن قوت سمجھتے ہیں،پارلیمنٹ کو کچھ سمجھا نہیں جارہا ہے،اس طرح پارلیمنٹ نہیں چلے گی،سال میں تین بجٹ پیش کر دیئے،وزیر خزانہ کہاں ہیں؟وزیر خارجہ ایوان میں آکر اسرائیل سے سفارتی تعلقات سے متعلق پالیسی بیان دیں۔
منگل کو سینٹ کا اجلاس چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ طالبان اور امریکہ کے مزاکرات میں ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔رضا ربانی نے کہاکہ کسی نے پارلیمنٹ کو گھاس نہیں ڈالی،آئیں پارلیمنٹ میں آکر اراکین کو اعتماد میں تو لیں۔ اجلاس کے دور ان قائد ایوان شبلی فراز نے کہاکہ وزراء کو آنا چاہیے،خصوصی اجلاس میں تھے اس لیے تاخیر ہوئی،رضا ربانی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ کوئی ایسا ایجنڈا نہیں تھا جس میں وزیر خارجہ کو آنا ہوتا،گزشتہ اجلاسوں میں وزیر خارجہ نے ایوان کو اعتماد میں لیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم بہت ذمہ داری کے ساتھ خارجہ سطح پر پاکستان کے مسائل کو اجاگر کر رہے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں فیصلہ کن قوت عوام ہے۔رضا ربانی نے کہاکہ امریکا اور افغان مذاکرات کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا جارہا ہے ،شکریہ ہے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہ انہوں نے طالبان اور امریکہ کے مذکرات کے حوالے سے بتایا۔انہوں نے کہاکہ وزیر خارجہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بعد بتانے کی زحمت کی ،پارلیمنٹ کو اتنے بڑے ایشو پر ایک بھی لفظ آکر نہیں بتایا ۔ انہوں نے کہاکہ افغان مذاکرات کا تعلق برائے راست پاکستان اور اس کی سلامتی کا مسئلہ ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کا اس ڈائیلاگ میں کیا کردار ہے،وزیر خارجہ پارلیمنٹ کو کچھ بتانا نہیں چاہ رہے ہیں رضا ربانی نے کہا کہ شاھ محمود قریشی نے کہا کہ فیصلہ کن قوتون کا کہنا ہے کہ
آصف زرداری اور نواز شریف کو آنے نہیں دینگے ۔رضا ربانی نے کہاکہ فیصلہ کن قوتیں کون ہیں بتایا جائے، رضا ربانی نے کہاکہ ہم عوام کو فیصلہ کن قوت سمجھتے ہیں ،پارلیمنٹ کو کچھ سمجھا نہیں جارہا ہے،اس طرح پارلیمنٹ نہیں چلے گی ۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے بارے میں وزیر خزانہ لاہور میں پریس کانفرنس کر سکتے ہیں ،وزیر خزانہ پارلیمنٹ میں آنے اور کچھ کہنے سے قاصر ہیں ۔بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیر ی رحمن نے کہاکہ 6 ماہ ہو گئے ہیں ،
یہ کہنا موزوں نہیں ہوگا کہ خسارہ گزشتہ حکومتوں نے دیا۔ انہوں نے کہاکہ تبدیلی سرکار نے اپنے اخراجات بڑھائے ہیں،اتنے بڑے گیپ کو کم کرنے کیلئے یہ حکومت کوئی کام نہیں کر ہی۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ صوبے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مگر وفاق کوئی قدم نہیں اٹھا رہا،انقلابی سرکار بہت بڑے گڑھے میں گرا رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ دوسرا بجٹ لا رہی ہے ،حکومت ہمارے لیے منفی ہے یہ تبدیلی،خوفناک سونامی کی شکل میں تبدیلی آ چکی ہے۔ انہوں نے کہاکہ
غیر روایتی طور پر پارلیمان کو نظر انداز کیا گیا،سال میں تین بجٹ پیش کر دیئے،وزیر خزانہ کہاں ہیں۔شیری رحمان نے کہاکہ ایوان صدر کا روانہ خرچہ 28 لاکھ روپے ہے،قوم کو سچ بتا دیں کس شرع سود پر قرضے لیے جا رہے ہیں،اس حکومت کو یہ پتہ ہی نہیں ہے منصوبہ بندی کیس ہونی چاہیے،پہلی بار پاکستان میں اس حکومت کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی،خیبر سے بلوچستان تک پی ایس ڈی پی پر ڈالر کی قیمت بڑھتے ہی 15 سو ارب کا قرض براہ راست بڑھا۔
سینیٹرسراج الحق نے کہا کہ ہر بجٹ میں جذباتی اور سیاسی فیصلے کئے جاتے ہیں،پاکستان میں 36فی صد بلیک معیشت ہے، بجٹ میں غریب آدمی کے لئے کچھ بھی نہیں ہے،تمام حکومتوں کوبجٹ بناکردینے والے ایک ہیں، صرف الفاظ تبدیل کرتے ہیں،6ماہ میں قوم پرریکارڈ قرضہ پڑا،ماہرین معیشت کے مطابق ہر منٹ میں ایک کروڑ اضافہ ہورہاہے۔انہوں نے کہاکہ ماضی کی حکومت نے ڈالر کو105 پرروکے رکھا،اگر ایک کروڑ نوکری دینی ہے تو 6ماہ میں دس لاکھ نوکریاں دینی چاہیے،
معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود فی کس آمدنی 1647روپے ہے،ہم تعلیم پر2.4 فی صد جبکہ افغانستان 9فی صد خرچ کررہے ہیں،افراط زر ماضی میں 3.8 جبکہ اس وقت 7 فی صد کے قریب ہیں۔ انہوں نے کہاکہ زرعی ملک ہونے کے باجود کسان بھوکا سوتاہے،پی ایس ڈی پی میں 161 راب کا کٹ لگایاگیا.،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے 121 جبکہ گیس سے 161ارب کااضافی بوجھ عوام پر پڑا،بجٹ میں کرپشن روکنے کا کوئی پلان نہیں،ایمنسٹی سکیم والوں کے ساتھ این آر اوکیا۔
سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ آج حکمران واہ واہ کر رہے ہیں اور عوام کی آہیں نکل رہی ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ واہ واہ کرنے والوں کی بھی آہیں نکلیں گی۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ فیصلہ کن قوتیں نوازشریف کو برداشت نہیں کرتیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ شاہ محمود قریشی نے تمام الزامات کا پردہ چاک کردیا ہے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ آج پتہ چلا ہے کہ نوازشریف جیل میں کیوں ہیں؟۔سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ پورے ایوان کیلئے
فیصلہ کن قوتیں عوام ہیں،آپ کو جواب دینا ہوگی کہ فیصلہ کن قوتیں کون سی ہیں۔سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ پانچ ماہ میں دو بجٹ پیش کئے گئے ، اوسط ڈھائی ماہ ایک بجٹ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے پانچ سال میں پانچ بجٹ دئیے یہ سوا سال میں پانچ بجٹ دے کر رخصت ہونا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ یہ ان کی خواہش ہے ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ پانچ سال پورے کریں ،ہمارے دور میں گردشی نوٹوں کاحجم 3.6 ٹریلین تھے آپ کے دور میں 7.9 ٹریلین ہے۔سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ
شاہ محمود نے پردہ چاک کر دیا ،ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کن قوتیں نواز شریف کو نہیں آنا دینا چاہتی ہیں ،گزشتہ روز وزیر پارلیمانی امور نے کہا کہ یہاں کی صنعتوں میں بھارتی لوگ کام کرتے تھے ،وزیر موصوف نے کہا کہ یہاں لوگ بغیر ویزے کے آتے تھے ،اس کے ثبوت اب انھیں پیش کرنا ہوں گے،اس بجٹ میں عوام کو ریلیف کیلئے ایک پیسہ نہیں رکھا گیا۔سینیٹرکلثوم پروین کا بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ میں چند لوگوں کو فائدہ دیاگیا،وزیراعظم چاہتے ہیں کہ وہ چھکالگاکر
حالات ٹھیک کردیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں کول نکالنے کیلئے ایف سی والوں کو بھی 3سوروپے ٹیکس دیناہوتاہے۔ انہوں نے کہاکہ پولیوورکرز برف باری کے باوجود زیارت میں پولیو مہم جاری کئے ہیں،پولیوورکرز کو ابتک ریگولائز نہیں کیاگیا، سینیٹر کلثوم نے کہاکہ بلوچستان میں زمین سے پانی نکالنے سے مناکیاجارہا ہے،ایف بی آر کو زنگ لگ گیا ہے حکومت زنگ دور کرے۔ انہوں نے کہاکہ جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ہم انکو رگڑ رہے ہیں۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ
ایف بی آر میں ضرور اچھے لوگ ہوں گے مگر پالیسی بھی ہونی چاہئے،جوٹیکس دینے والے انکا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریکوڈک،سینڈک اور گوادر ترقی کرے تو بلوچستان کو کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں۔ اجلاس کے دور ان سینیٹر کلثوم پروین نے چیئر مین سینٹ سے شکوہ کیا کہ میرے سوال پر آپ نے یو ٹرن لیا،گزشتہ دنوں میں نے ایوان میں بلوچستان میں سو ڈیموں کا معاملہ اٹھا تھا،بلوچستان کے بارے میں سو ڈیمز منصوبے کی بات ہو رہی ہیں۔
پہلے دس ڈیمز تو تعمیر تو ہوں،بلوچستان کو ہر قسم کی ٹیکسوں سے مستثنیٰ کیا جائے۔سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ حکومت انتظار کرلیتی چندماہ بعد نیابجٹ آرہاتھا،بجٹ میں بیرون ملک اثاثہ رکھنے والوں کو ایمنسٹی سکیم دی،روپے کی قدر میں کمی کرکہ بھی برآمدت میں اضافہ نہ ہوسکا،اچھی تقریروں اور ٹویٹ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔وزیر مملکت حماد اظہر نے کہاکہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران محصولات کی مد میں ہدف کے
مقابلے میں 162 ارب روپے کم حاصل ہوئے۔وزیر مملکت خزانہ حماد اظہر نے کہاکہ کمیونیکیشن کی مد میں ایک ارب کے ہدف کے مقابلے میں پچاس ارب حاصل ہوا ۔ وزیر مملکت نے کہاکہ موبائل کارڈ پر ٹیکس پر سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دیا ہے ۔وزیر مملکت نے کہاکہ موبائل کارڈ کا ایشو جلد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،ہم آئندہ چھ ماہ میں محصولات کی مد میں اپنے خسارہ پورا کر لیں گے ۔وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل مصر میں 6پاکستانیوں کی بندرگاہ
پر قید کا معاملہ اٹھاتھا،مصرمیں ہمارا قونصل خانہ تمام معاملے کودیکھ رہے ہیں،جلد مصر میں پھنسے 6پاکستانی واپس وطن آجائیں گے،2014 کے اخبارات میں خبر آئی کہ پنجاب میں ایک شخصیت کی صنعتوں میں بھارتی بغیر ویزا کے آئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ طاہر القادری نے بھی غیر ملکیوں کی نشاندہی کی تھی۔انہوں نے کہاکہ اگر پرویز رشید سمجھتے ہیں کہ وہ معاملے کی تحقیق کرناچاہتے ہیں تو حکومت تیار ہے۔ وزیرمملکت نے کہاکہ پرویز رشیدجیسے چاہیں کمیٹی بنالیتے ہیں،
کمیٹی دفاعی اداروں کو بلاکر پوچھ لے کے آیا کہ یہ خبریں درست تھیں یانہیں۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے ،پولیس سانحہ ساہیوال کو کور اپ کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ ا س موقع پر میاں رضا ربانی کی جانب سے سینیٹر جاوید عباسی کے مطالبہ کی حمایت کی گئی ۔ رضا ربانی نے کہاکہ اگر دہشتگردی میں ملوث لوگوں کے ساتھیوں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جائیگی تو اس کا نتیجہ سامنے ہوگا۔ رضا ربانی نے کہاکہ سانچہ ساہیوال میں
استعمال ہونے والا اسلحہ اور گولیاں فرانزک کے لیے فراہم نہیں کی جا رہیں۔ رضا ربانی نے کہاکہ سینیٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ عام آدمی کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔رضا ربانی نے کہا کہ سانحہ ساہیوال میں ملوث لوگوں کو مثال بنایا جائے تاکہ آئندہ ریاستی دہشتگردی نہ ہو۔ رضا ربانی نے کہاکہ حکومت جس جج کو چاہے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے مقرر کردے۔ قائد ایوان شبلی فراز نے کہاکہ وزیراعظم اور کابینہ سے کہوں گا کہ سینیٹ کے اٹھائے گئے
نکات کو تسلیم کیا جائے۔ شبلی فراز نے کہاکہ وزیراعظم نے واضح کردیا ہے کہ کسی بھی فورم پر تحقیقات پر کوئی اعتراض نہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ دوحہ میں طالبان مذکرات سے سے پورا خطہ متاثر ہورہاہے۔انہوں نے کہاکہ خارجہ پالیسی کے بارے میں اخبار سے پتہ چلتی ہیں،وزیر خارجہ ایوان میں آکر اسرائیل سے سفارتی تعلقات سے متعلق پالیسی بیان دیں۔انہوں نے کہاکہ دوحہ مذاکرات میں دو امریکی پروفیسرز کی رہائی کی بات ہوئی،حکومت دوحہ مذکرات سے فائدہ اْٹھا کر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کرے۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے الیکشن سے قبل عافیہ صدیقی کی رہائی کاوعدہ انکی والدہ سے کیاتھا،عافیہ صدیقی کے گھر والے حکومتی اقدامات سے خوش نہیں ۔سینیٹربیرسٹرسیف نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کسی اور کو وزیر داخلہ تعینات کریں،عمران خان وزرات داخلہ کا قلمدان کسی اور کو سونپ دیں،عمران خان بھی وہی غلطی کررہے ہیں جو نواز شریف نے وزرات خارجہ قلمدان رکھ کی۔ انہوں نے کہاکہ عافیہ صدیقی کے معاملے میں بہت سے سوالات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیرخارجہ ایوان میں آکر عافیہ صدیقی کے حوالے سے پالیسی بیان دیں۔سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق سینیٹ سیشن کا یومیہ خرچہ ایک کروڑ ہے،اپوزیشن کے کہنے پر 283ویں سیشن بولیاگیا۔ انہوں نے کہاکہ سیشن میں کوئی تجاویز اور قانون سازی نہیں کی گئی۔انہوں نے کہاکہ سینیٹ میں آکر ایسے لگتاہے کہ جیسے حجرے میں بیٹھیں ہیں،جہاں پرہر کوئی آکر کچھ بول دے۔ رضا ربانی نے نعمان وزیر سے مکالمہ کیا کہ توآپ استعفیٰ دے دیں۔نعمان وزیر نے کہاکہ ہم نے اپوزیشن کے کہنے پر 3دن اجلاس بولاکر 3کروڑ ضائع کئے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہاکہ آپ کیاچاہتے ہیں کہ ایوان کو تالالگادیں۔ نعمان وزیر نے کہا کہ ہم عوام کو حساب دیں گے۔بعد ازاں سینیٹ کااجلاس جمعرات کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔