واشنگٹن (آ ن لائن) امریکہ کیلئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہاہے کہ انہیں گزشتہ 7 سال میں پاکستانی حکام کی جانب سے کوئی وارنٹ موصول نہیں ہوئے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اپنے جاری ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے پیچھے پاکستانی میڈیا کو بیوقوف بنانے کا مقصد ہوسکتا ہے، مجھ سے استعفیٰ لینے کے 7 سال بعد میرے خلاف نئے الزامات واضح طور پر خود ساختہ ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے شک ہے کہ میری حوالتی سے متعلق پاکستانی حکومت میرے خلاف کارروائیاں کرے گی جو یقیناً ناکام ہوں گی‘۔واضح رہے کہ مقامی اخبار میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے انٹرپول کے ذریعے سابق سفیر حسین حقانی کی حوالگی میں ناکامی کے بعد دفتر خارجہ کے ذریعے امریکا سے تحویلِ مجرمان کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے مجرمان کی حوالگی سے متعلق 355 صفحات پر مشتمل دستاویز دفتر خارجہ کو ارسال کی ہے جسے حسین حقانی کی حوالگی کے لیے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو روانہ کیا جائے گا۔اس سلسلے میں دفتر خارجہ میں اجلاس بھی طلب کیا گیا جس میں اس کیس کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے حسین حقانی کو واپس لانے کے عدالتی حکم پر عمل در آمد نہ ہونے پر لیے گئے از خود نوٹس میں حکومت کو ان کی واپسی یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔سپریم کورٹ کے احکامات پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سابق سفیر کی واپسی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں گزشتہ روز جمع کرائی۔رپورٹ کے مطابق حسین حقانی کی واپسی کے لیے وزارت خارجہ میں اہم ملاقاتیں ہوئیں، 19 دسمبر کو ایڈیشنل سیکریٹری سطح کا اجلاس بھی ہوا۔ ایف آئی اے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حسین حقانی نے اپنی مدت ملازمت کے دوران اختیارات کا غلط استعمال کیا جبکہ انہوں نے سیکرٹ سروس فنڈز کی خلاف ورزی کی۔
حسین حقانی نے 20 لاکھ ڈالر سالانہ خورد برد کی جبکہ انہوں نے 80 لاکھ کروڑ ڈالر میں سے 40 لاکھ ڈالر ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سرکاری پیسے کے غلط استعمال پر حسین حقانی کے خلاف مارچ 2018 میں ایف آئی آردرج ہوئی۔واضح رہے کہ 4 جون 2013 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے حکومت کو تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے حسین حقانی کو واپس لانے کا حکم دیا تھا